دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
عالمی تبدیلیاں, پاکستان اور حزب اختلاف کی بے چینی-‎
عامر ایچ قریشی
عامر ایچ قریشی
آپریشن "عزم استحکام" کی بنیاد اور حزب اختلاف کے شور شرابے کی بنیاد عالمی تناظر میں تیزی سے وقوع پزیر ہونے والی تبدیلیاں ہیں-دو دن قبل آپکو "INSTC" سے آگاہ کیا اور آج "BRICS" تنظیم اور اسکے پاکستان سے تعلق کی بابت آج کی انتہائی اہم پوسٹ آپکی نظر-
روس کے ڈپٹی فارن منسٹر سرگئی ریبکوف الیکسیوچ نے 21 جون بروز جمعہ کازان میں منعقدہ BRICS سمٹ میں انتہائی اہم اعلان کرتے ہوۓ شرکاء کو بتایا کہ BRICS تنظیم کے ممبر ممالک ایک مشترکہ کرنسی لانچ کرنے پر آمادہ ہیں- اسکا باقاعدہ بلیو پرنٹ اگلی BRICS سمٹ (اکتوبر 24) میں پیش کر دیا جائیگا اور یہ کرنسی ایک سال سے کم کے عرصے میں باقاعدہ طور پر لانچ کر دی جائیگی-
ہم میں سے بہت سے دوست شاید BRICS سے واقف نہ ہوں, اسلئے میں نے مناسب سمجھا کہ تیزی سے بدلتے ہوۓ بین الاقوامی پس منظر میں BRICS کی اہمیت کے پیش نظر اسکا مختصر تعارف اور اسکے پاکستان سے متعلق مستقبل پر کچھ روشنی ڈالوں-
ایک ماہر معیشت دان جم او نیل نے 2001 میں اولاً چار ممالک برازیل, روس, انڈیا, چائنہ کا ذکر کرتے ہوۓ "BRIC" نظریہ پیش کرتے ہوۓ بتایا کہ ان چار ممالک کا گروتھ ریٹ ترقی یافتہ ممالک کے گروتھ ریٹ سے زیادہ ہے اور اگر یہ تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشتیں باہمی تعاون کو فروغ دیں تو سن 2050 تک یہ پوری دنیا پر حاوی ہو جائینگی- بعد ازاں یہ چار سے بڑھ کر پانچ ممالک یعنی برازیل, روس, انڈیا, چائنہ اور ساؤتھ افریقہ پر مشتمل ہو کر ایک باقاعدہ تنظیم BRICS بن گئی جسکا پہلا اجلاس سن 2009 میں ہوا- BRICS دراصل ان ممالک کے ناموں کے پہلے حروف تہجی سے تشکیل دیا گیا مخفف ہے-
مارچ 2024 میں مصر, ایتھوپیا, ایران, متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب بھی اس تنظیم کے باقاعدہ ممبرز بن گئے اور یوں اسکے موجودہ ممبران کی تعداد 10 ہو گئی- ارجنٹائن عنقریب ایک نئے ممبر ملک کے طور پر تنظیم کو جوائن کرنے والا ہے- علاوہ ازیں 40 ممالک نے BRICS تنظیم میں شامل ہونے کیلئے درخواستیں دے رکھی ہیں- ان ممالک میں پاکستان 🇵🇰 بھی شامل ہے جس نے شمولیت کی درخواست نومبر 2023 میں دی تھی-
تنظیم BRICS کے اوّلین مقاصد میں شامل ہیں:-
1- علاقائی مسائل کا حل جیسے ایران کا نیوکلیئر پروگرام اور لیبیا, شام اور افغانستان میں داخلی اور خارجی کشیدگی کا خاتمہ-
2- ممبر ممالک کے مالیاتی مسائل کا سدباب اور ورلڈ بینک اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (IMF) میں اصلاحات کروانا-
3- ممبر ممالک کے درمیان انٹر بینک سسٹم وضع کرنا اور مشترکہ سنگل کرنسی قائم کرنا-
4- مغرب کے بنائے روایتی عالمی نظام کے برخلاف ایک نیا نظام وضع کرنا-
5- ایک نئے ترقیاتی بینک کا قیام تاکہ ابھرتی مارکیٹوں اور ترقی پذیر ممالک کو انفراسٹرکچر اور پائیدار ترقیاتی منصوبوں کیلئے فنڈنگ کی سہولت فراہم کی جا سکے-
6- برکس پارلیمانی فورم کا قیام تاکہ ممبر ممالک بین الپارلیمان تبادلوں, مشاورت اور تعاون کے ذریعے مضبوط پالیمانی نظام اور اس میں مزید بہتری کی راہیں تلاش کی جا سکیں-
برکس تنظیم کے مطابق 2023 کے اختتام پر BRICS اقوام کا مجموعی GDP عالمی GDP کا 31.5 فیصد ہے جبکہ G-7 ممالک کا مجموعی GDP عالمی GDP کا 30.7 فیصد ہے- (جی سیون ممالک میں شامل ہیں امریکہ, کینیڈا, یو کے, فرانس, جرمنی, اٹلی اور جاپان)-
برکس ماہرین کے مطابق موجودہ دور کی عالمی طاقتیں سن 2050 تک فی کس آمدنی کے انڈکس کے حساب سے امیر ترین نہیں رہینگی-
پاکستان کی BRICS ممبرشپ تاحال پینڈنگ ہے- چائنہ کی شدید خواہش ہے کہ پاکستان اس تنظیم کا ممبر بنے- پاکستان کی درخواست کو چائنہ نے ہی اینڈورس کیا اور اسوقت روس بھی پاکستان کی ممبرشپ کے حق میں کھڑا ہے- انڈیا کو پاکستان کی معاشی کمزوری اور اسکے اعداد و شمار کو لیکر تحفظات ہیں-
چائنہ اس بات پر زور دے رہا ہے کہ پاکستان اپنے مالیاتی, انتظامی, سلامتی اور سیاسی امور میں استحکام پیدا کرے تاکہ اسکی معیشت کے اعداد و شمار بہتر ہوں اور تنظیم میں داخلہ ممکن ہو سکے-
پاکستان میں داخلی طور پر تمام سٹیک ہولڈرز (ماسوائے اپوزیشن پارٹیز) BRICS ممبرشپ اور چائنہ کی نصیحت آمیز مشاورت اور نظامت کو اسکے مطابق ڈھالنے پر رضامند ہیں- کل جس "آپریشن عزم استحکام" شروع کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے وہ بھی اسی پس منظر سے جڑا ہے- حزب اختلاف کی جماعتوں, بالخصوص پی ٹی آئی کو اس عالمی تبدیلی سے شدید تکلیف پہنچی ہے- نظامت پر انکے زبانی حملوں میں تیزی کا سبب انکی آگہی ہے کہ اقتدار سے انکا ناطہ ہمیشہ کیلئے ختم ہو چکا ہے اور دوست ممالک کو بھی یہ پارٹی کسی بھی اختیار والی پوزیشن میں قابل قبول نہیں ہے-
سوشل میڈیا پر "آپریشن عزم استحکام" کو پی ٹی آئی اور قبائلی علاقہ جات کیخلاف آپریشن قرار دیکر پی ٹی آئی اپنے سپورٹرز (بالخصوص خیبر پختونخوہ کے عوام) کو بھٹکا رہی ہے- پنجابی-پٹھان تعصب کو ہوا دیکر آگ بھڑکائی جا رہی ہے-انکے سوشل میڈیا ایکٹوسٹس ہر فورم پر پاک-چین تعلقات کو نقصان دہ قرار دیکر ملک میں انتشار پیدا کرنے کے درپے ہیں-
بہرحال, بین الاقوامی تعاون کی خبریں اچھی ضرور ہیں لیکن منزل کا حصول اب بھی دشوار ہے- مطلوبہ اہداف حاصل کرنے کیلئے سیاستدانوں, جرنیلوں, ججوں, میڈیا مالکان, صحافیوں, کاروباری اداروں, سرکاری ملازموں سمیت عوام کو بھی اپنا اپنا کردار ٹھیک طریقے سے ادا کرنا ہو گا- استعماری طاقتوں سے چھٹکارے کا ایسا موقع شاید پھر کبھی نہ ملے-
واپس کریں