عامر ایچ قریشی
سیاست کے طریقہ کار سے بھلے اختلاف ہو لیکن میں ذاتی طور پر میاں شہباز شریف کی پریکٹیکل اپروچ, ترقی پسندی, ویژن اور اسپیڈ کا دلی طور پر قدردان ہوں-دورہ چین میں جو کامیابیاں میاں صاحب نے سمیٹیں وہ ملک میں سیاسی گہما گہمی کے ماحول میں دھندھلا کر رہ گئیں- ان کامیابیوں میں سے ایک کا میں یہاں بطور خاص ذکر کرنا چاہوں گا-
میاں صاحب نے دس ہزار میگاواٹ کے شمسی توانائی کے جس منصوبے کیلئے چین کی کمپنیوں سے عملدرآمد کیلئے مثبت راے لی ہے یہ انکی بہت بڑی کامیابی ہے- میں اسے بڑی کامیابی کیوں قرار دیتا ہوں, اسکی وجوہات درج ذیل ہیں-
اگرچہ ملک میں بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت مانگ کے برابر ہے لیکن تیل اور گیس سے چلنے والے پاور پراجیکٹس نہ صرف پاکستان کی معیشت پر بوجھ ہیں بلکہ ادارہ جاتی کرپشن کا ذریعہ بھی ہیں- روس-یوکرین جنگ کے بعد سے ایل این جی کی عالمی قلّت ہے, قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں اور زیادہ آمدنی کی لالچ میں قطر نے پاکستان کیساتھ ہوۓ ایل این جی معاہدے کو نظر انداز کرتے ہوۓ شپمنٹس کا رخ یورپی ملکوں کی طرف موڑ دیا جسکی وجہ سے بجلی کا بحران پیدا ہوا, شارٹ فال سات ہزار میگاواٹ تک پہنچا اور ہم سب نے شدید گرمیوں کے دوران لوڈ شیڈنگ کا عذاب بھگتا-
پاکستان جیسے بدحال معیشت والے ملک کیلئے فرنس آئل اور ایل این جی کی درآمد ایک بوجھ ہے کیونکہ امپورٹ پر کثیر زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے- پھر کچھ حکومتیں اپنے ذاتی مفادات کے تحت بھی غلط فیصلے کر لیتی ہیں- مثال کے طور پر پی ٹی آئی حکومت نے سستی ایل این جی کی بین الاقوامی آفرز پر جان بوجھ کر تاخیر کی, یہاں تک کہ وہ آفرز ایکسپائر ہو گیں اور پھر مفادات کی خاطر قطر سے مہنگی ایل این جی خرید کر قومی خزانے کو 10 ارب روپے سے زائد کا نقصان پہنچایا-
اس میں شک نہیں کہ سیلابوں کی روک تھام اور آبپاشی کیلئے سارا سال پانی کی فراہمی کیلئے دریاؤں پر ڈیم تعمیر ہونا اشد ضروری ہیں لیکن فی زمانہ پانی سے سستی بجلی حاصل کرنے کا نظریہ دم توڑ چکا ہے- ڈیموں اور انسے متصل پاور ہاؤسز کی تعمیری لاگت پہلے کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ چکی ہیں- علاوہ ازیں پاکستان کے تمام دریاؤں کا ماخذ ہمالیہ اور قراقرم کے پہاڑی سلسلے ہیں اور ان پہاڑوں کی ساخت اور کم عمری کے باعث پانی اپنے بہاؤ کے ساتھ ریت اور مٹی (سلٹ) کی بڑی تعداد لیکر آتا ہے اسلئے ڈیموں کی پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش بتدریج کم ہونے لگتی ہے- گنجائش کم ہونے سے پانی کا پریشر کم بنتا ہے اور بجلی کی پیداوار بھی کم ہو جاتی ہے- یہ سلٹ ڈیم کی سرنگوں کو بھی نقصان پہنچاتا ہے جس کے باعث نہ صرف انکی مرمت پر خطیر زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے بلکہ اس دوران بجلی کی پیداوار بھی روکنی پڑتی ہے- اسی وجہ سےتربیلا ڈیم کی گنجائش پچاس فیصد کم ہو چکی ہے جبکہ منگلا ڈیم کی گنجائش پچھتر فیصد کم ہونے پر سن 2004-2005 میں ہنگامی بنیادوں پر اسکے پشتے بلند کر کے پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش کو بڑھایا گیا تھا- اسوقت وارسک ڈیم بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا کر رہا ہے-
شمسی توانائی کا پروجیکٹ ایک دفعہ کا خرچہ ہے- مینٹیننس اور آپریشنل اخراجات انتہائی کم ہوتے ہیں- صرف سولر پننیلز کی تنصیب سے پروجیکٹ بہت کم وقت میں بجلی پیدا کرنے کیلئے تیار ہو جاتا ہے- ماحولیاتی آلودگی سے پاک ہوتا ہے- آئل یا گیس کی ضرورت نہ ہونے کی وجہ سے امپورٹ بل (زرمبادلہ) کی بھی بچت ہوتی ہے-
الله کرے کہ میاں شہباز شریف صاحب کے ویژن کے مطابق دس ہزار میگاواٹ کے مجوزہ منصوبے پر کام جلد شروع ہو اور اسکے بعد چاہے کوئی بھی حکومت آے وہ سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کے اسے تکمیل تک لیکر جاے- شخصیات نہیں, پاکستان اھم ہے-
واپس کریں