دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
عمرانی لونڈے پر خصوصی عنایت‎
عامر ایچ قریشی
عامر ایچ قریشی
ضابطوں اور قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوۓ پشاور یونیورسٹی نے PTI کے چھچھورے MNA مراد سعید کو BS آنرز کی ڈگری جاری کر دی جبکہ مذکورہ لونڈے نے صرف آدھے گھنٹے میں تین پرچے دیئے اور یونیورسٹی نے اسی دن تمام پرچوں میں اس لونڈے کو "پاس" کا رزلٹ بھی جاری کر دیا- یہ عمل نہ صرف یونیورسٹی رولز بلکہ BS ریگولیشنز 2010 کی کھلم کھلا اور بدمعاشانہ خلاف ورزی تھی-
مراد سعید کو جعلی ڈگری عطا کیئے جانے کا یہ انوکھا معاملہ ساری دنیا کے سامنے ایک اور مثال ہے کہ کیسے ملک بھر سے فراڈیوں, نوسربازوں اور جعلی لوگوں کو اکٹھا کر کے PTI تشکیل دی گئی اور کیسے اسوقت کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کیلئے قانون اور ضابطوں کو اپنے گھر کی لونڈی بنا کر ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا-
اس جعلسازی کا مرکزی کردار پشاور یونیورسٹی کا وائس چانسلر ڈاکٹر محمّد آصف خان تھا جسکو KPK کی PTI حکومت نے اس وعدے پر تعینات کیا تھا کہ وہ اس معاملے کو صاف کرے- یہ اسوقت کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا عمران سے اور عمران کا اپنے لونڈے مراد سعید سے انتہا کو پہنچے ہوۓ والہانہ پیار کا عجیب و منفرد شاخسانہ تھا-

پختون سٹوڈنٹ فیڈریشن نے مراد سعید کیلئے اس طرح قانون توڑے جانے کیخلاف سخت احتجاج کیا اور تب یونیورسٹی نے اس کیس کی انکوائری کیلئے ایک کمیٹی بنا دی- یہ کمیٹی یونیورسٹی کے سابقہ وائس چانسلر ڈاکٹر رسول جان نے تشکیل دی تھی- انکوائری کے دوران مراد سعید نے پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا- یونیورسٹی کی انکوائری کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ "متعلقہ ڈیپارٹمنٹ نے تمام قوائد اور ضوابط نظر انداز کرتے ہوۓ مراد سعید سے ایک "میک اپ امتحان" لیا- ایسا کرنے کیلئے پہلے BS کمیٹی کی منظوری لینا ضروری تھی جو کہ نہ لی گئی- لہٰذا مذکورہ امتحان اور اسکے رزلٹ کی کوئی قانونی حثیت نہیں"-
مارچ 2018 میں پشاور ہائی کورٹ نے مراد سعید کی درخواست پر معاملہ یونیورسٹی سنڈیکیٹ (مجلس اعلیٰ) کے حوالے کر دیا- یوں یہ معاملہ پھر سے وائس چانسلر ڈاکٹر محمّد آصف کے پاس آ گیا اور یونیورسٹی کی پہلے والی (ڈاکٹر رسول جان کی تشکیل کردہ) انکوائری کمیٹی اور اسکی رپورٹ غیر موثر ہو گئے- سنڈیکیٹ (مجلس اعلیٰ) کی انکوائری کمیٹی نے اپنی انکوائری رپورٹ میں مراد سعید کو کلئیر کر دیا اور یوں پشاور ہائی کورٹ نے یونیورسٹی کی جعلی کلین چٹ پر اپنی مہر لگا دی-

امر حیران کن یہ کہ جب میڈیا نے سنڈیکیٹ (مجلس اعلیٰ) کے ہیڈ رکن پروفیسر ڈاکٹر بشیر احمد سے سوال کیا کہ سنڈیکیٹ نے کیسے مراد سعید کو معاملے میں کلئیر کر دیا تو جواب میں ڈاکٹر بشیر نے کہا کہ "وہ مراد سعید کو ڈگری جاری ہونے کے معاملے سے واقف ہی نہیں ہیں اور اپنی صحت کی خرابی کے باعث ایک ماہ کا عرصۂ وہ یونیورسٹی نہیں گئے اور نہ کسی سنڈیکیٹ (مجلس اعلیٰ) کی صدارت کی
اسی طرح یونیورسٹی کے انوائرنمنٹل ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر حزب اللہ نے بھی میڈیا کو بتایا کہ وہ اس معاملے میں کسی پیشرفت سے آگاہ نہیں تھے کیونکہ یونیورسٹی اتھارٹیز نے انہیں اس معاملے میں بائی پاس کیا تھا-
بی ایس ریگولیشنز 2010 کے مطابق BS کا امتحانات کوارڈینیٹر متعلقہ شعبے (انوائرنمنٹل ڈیپارٹمنٹ) سے منظوری لیکر مارک شیٹ جاری کر سکتا تھا جبکہ متعلقہ شعبے کا چیئرمین کہہ رہا ہے کہ اسے تو بائی پاس کردیا گیا تھا-
انچارج پروگرام: باوردی مقتدرہ
سہولت کاری: VC پشاور یونیورسٹی
کلین چٹ جاری کنندہ: پشاور ہائی کورٹ
فرمائشی پروگرام: نشئی عاشق نامراد
فائدہ کنندہ: لونڈہ (با) مراد سعید
دیکھا دوستو! صاف چلی شفّاف چلی
واپس کریں