دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
اسٹیبلشمنٹ نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا
عامر ایچ قریشی
عامر ایچ قریشی
پرویز مشرّف نے سن 2007 میں قومی مصالحتی آرڈیننس (NRO) لا کر سیاسی مقدمات ختم کیئے لیکن اسکی آڑ میں سیاسی پارٹیوں بالخصوص پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے نہ صرف اپنے کرپٹ بندے بھی چھڑوا لیئے بلکہ قتل, اغوا اور ڈکیتیوں کے پیشہ وارانہ مجروموں کو بھی آزاد کروا لیا- مشرّف ایک ڈکٹیٹر تھا اور "جنگل کا بادشاہ انڈہ دے یا بچہ دے" کے مصداق اسے کوئی پوچھنے والا نہیں تھا کہ "سالے تم ہوتے کون ہو ملک کی دولت لوٹنے والوں اور جرائم پیشہ لوگوں کو معاف کرنے والے؟" پھر اسی مشرّف نے سن 2010 میں NRO دینے کو غلطی کہہ کر اعتراف بھی کیا-
کیا سولہ سال گزارنے کے بعد حالات تبدیل ہوۓ ہیں؟ جواب ہے "قطعی نہیں ہوۓ"-

نااہل سیاستدان, لینڈ/قبضہ مافیا, شوگر مافیا, آٹا مافیا, شپنگ مافیا, دوائی مافیا, آرٹیکل چھ کے ملزمان, بی آر ٹی پشاور لوٹنے والے, مالم جبّا کی زمین کوڑیوں کے مول دیکر مال بنانے والے, بلین ٹری سونامی سے اربوں روپے کا ٹیکہ لگانے والے, بلدیاتی فنڈز کھانے والے, ٹھیکوں میں مال بنانے والے, ارشد شریف مرحوم کی جان کا تھریٹ الرٹ جاری کروانے والے اور یہاں تک کہ عورتیں سپلائی کر کے مال بنانے اور عہدے انجوائے کرنے والے, ان تمام کو استحکام پارٹی بنانے اور جوائن کرنے کے عوض انکے جرائم کو کس نے معاف کیا؟ اور کیوں؟
کیا یہی ایک طریقہ بچا تھا فتنہ ختم کرنے کیلئے؟ کیا یہ NRO نہیں ہے؟

نو مئی کے کارڈ کو ضرورت سے زیادہ اچھال کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی گئی- ہم سب نے فردوس عاشق اعوان کے بشریٰ پنکی بارے ہیپناٹائز, میگناٹائز اور مسمرائز کے بیان کو تو خوب چسکے لے لے کر سنا تھا لیکن اب جب یہی کام ملٹری اسٹیبلشمنٹ کر رہی ہے تو ہم خوش ہیں- ان جرائم پیشہ لوٹوں کو معاف کرنے کی اتھارٹی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو کس نے دی؟
معذرت کیساتھ! یہاں پی ڈی ایم کی تمام جماعتیں ایک بار پھر تاریخ کی غلط سمت میں کھڑی ہیں-

ردالفتنۂ کیلئے اسے تنہا تو ان غلیظ جرائم پیشہ لوٹوں کو اندر کر کے بھی کیا جا سکتا تھا- رہی بات ستمبر کے مہینے تک جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کے CJP بننے کے انتظار کی, تو یاد رکھیں وہ آپکے والد گرامی کے نوکر قطعی نہیں ہونگے بلکہ وہ صرف اور صرف آئین اور قانون پر عمل کریں اور کروائیں گے- انکا یہ کام نہیں ہوگا کہ آج آپ جنہیں معاف کر رہے ہیں, وہ کل انہیں پکڑ پکڑ کر سزائیں دیں-
جب کامران خان, عمران ریاض, صابر شاکر, چودھری غلام حسین, معید پیرزادہ اور متعدد لفافہ صحافی, یوٹیوبرز, ٹویپرز اور کی بورڈ وارایئرز سب ملکر غفورے کالیئے کی باتیں مان کر عمران اور گزشتہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے حق میں بولتے اور لکھتے تھے, اسوقت تو ہم سب کو بہت برا لگتا تھا لیکن اب جب ہماری سائیڈ کے صحافی اور ٹویپرز 9 مئی کارڈ کو اچھالنے (overplay) کرنے میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی گود میں جا کر بیٹھ گئے ہیں اور استحکام پارٹی بننے پر انکی باچھیں کھلی پڑ رہی ہیں تو ہمیں ذرا بھی برا محسوس نہیں ہو رہا-

فوجی جرنیل ہوں, سیاستدان ہوں, صحافی ہوں, سوشل میڈیا ایکٹوسٹس ہوں یا عام شہری, ایک بات ثابت ہے کہ ہم ایک پھدّو, بھوکی اور لالچی قوم ہیں جنکا آئین, قانون, اصول پرستی اور نظریات سے کوئی لینا دینا نہیں, بس قلیل مدّتی مفادات سے آگے سوچنے اور دیکھنے کی ان میں صلاحیت ہے ہی نہیں-
واپس کریں