دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
دیپک مشرا اور بندیال
عامر ایچ قریشی
عامر ایچ قریشی
دیپک مشرا انڈیا کا چیف جسٹس تھا- وہ 28 اگست 2017 سے 2 اکتوبر 2018 تک کل 13 ماہ اپنے عہدے پر رہ کر ریٹائر ہوا- وہ اپنی مطلق العنان طبع اور انتہائی متنازعہ فیصلوں کی وجہ سے مشہور ہوا- اس نے کئی فیصلے آئین اور قانون سے روگردانی کرتے ہوۓ لکھے- بندیال کی طرح وہ بھی پسند کے ججز کے بینچ بنایا کرتا جس میں بیشتر سینئر ججز شامل نہ ہوتے- کئی ایسے مقدمات میں اس نے ملزمان کی ضمانتیں منظور کیں جہاں ضمانت ملنا قطعی ممکن نہ تھا- انڈیا کے نظام عدل اور سپریم کورٹ کو بے توقیر کرنے میں دیپک مشرا نے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی-

پھر انڈیا کی تاریخ کا انتہائی انوکھا اور بینظیر واقعہ ہوا- انڈیا کی سپریم کورٹ کے چار سینیئر ترین ججوں نے 11 جنوری 2018 کو ایک خط اور پریس کانفرنس میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی اتھارٹی کو چیلنج کر دیا- ابھی چیف جسٹس دیپک مشرا کو عہدہ سنبھالے صرف چار ماہ کا عرصہ ہی گزرا تھا-
پریس کانفرنس میں چار جج صاحبان نے کہا کہ چیف جسٹس عدالتی اصولوں کے خلاف اپنی پسند کے مطابق مختلف بینچوں کو کیسز متعین کرتے ہیں- انہوں نے کہا کہ جب تک عدالتی ضابطہ کار کی پاسداری نہیں کی جائے گی تو ملک میں جمہوریت نہیں رہے گی-

جن چار سینیئر ترین جج صاحبان نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے خلاف پریس کانفرنس کی ان میں جسٹس جے چلاسپیشمر، جسٹس رانجن گوگوئی، جسٹس مدن لوکر اور جسٹس کرین جوزف شامل تھے-
یہ پریس کانفرنس سپریم کورٹ کی ریذیڈنس پر ہوئی۔ سپریم کورٹ کے دوسرے سینییر ترین جج جسٹس جے چلاسپیشمر نے کہا "ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ اگر یہ ادارہ نہیں بچا تو اس ملک میں جمہوریت نہیں بچ سکے گی اور اچھی منصفی اچھی جمہوریت کے لیے انتہائی ضروری ہے"-
انہوں نے مزید کہا "چونکہ ہماری تمام تر کوششیں بے سود ثابت ہوئیں یہاں تک کہ آج صبح بھی ہم چیف جسٹس کے پاس گئے اور ان سے درخواست کی لیکن ان کے ساتھ ان کے پوائنٹ پر متفق نہیں ہو سکے۔ اس کے بعد ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا کہ ملک کو بتایا جائے کہ عدلیہ کا خیال کرو"-

جسٹس جے چلاسپیشمر نے مزید کہا "میں نہیں چاہتا کہ 20 سال بعد اس ملک میں ایک سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص کہے کہ جے چلاسپیشمر، رانجن گوگوئی، مدن لوکر اور کرین جوزف نے اپنا ضمیر بیچ دیا"-
ان چار جج صاحبان نے چیف جسٹس کے نام ایک خط بھی لکھا جس میں سپریم کورٹ کے "چند عدالتی احکامات" پر تحفظات کا اظہار کیا- انھوں نے لکھا کہ ان احکامات کی وجہ سے عدالتی کارروائی متاثر ہو رہی ہے- انھوں نے خط میں یہ بھی لکھا کہ ان کے پاس میڈیا سے بات کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کیونکہ چیف جسٹس دیپک مشرا نے ان کے تحفظات سننے سے انکار کر دیا تھا-

سپریم کورٹ کے چار سینیئر ترین ججوں کی جانب سے پریس کانفرنس کے باعث وزیر اعظم نریندر مودی نے وزیر قانون روی شنکر کے ساتھ فوری طور پر ملاقات کی- وزیر قانون نے وزیراعظم کی ہدایت پر دیپک مشرا کو واضح پیغام بھجوایا کہ آپ اپنا طرز عمل ٹھیک کریں ورنہ جہاں انڈیا کی تاریخ نے سینئر ججز کی طرف سے چیف جسٹس کے خلاف پہلی مرتبہ پریس دیکھی ہے وہیں چیف جسٹس کے خلاف پہلی مرتبہ ریفرنس بھیجا جانا بھی انڈیا کی تاریخ کی پہلی مثال بن جائیگا-
پھر دنیا نے دیکھا کہ چیف جسٹس دیپک مشرا نے پرانی روش ترک کرکے اپنی ملازمت کے بقیہ 9 ماہ بندے کے پتھروں کی طرح گزرے اور باعزت طریقے سے ریٹائر ہوا-
بن جائیگا-
سبق کا حاصل:-
مشرا میں اتنی غیرت, شرم اور حیاء باقی تھی کہ وہ ریاست اور جمہوریت کی خاطر راہ راست پر آ گیا-
واپس کریں