دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پاکستان کے منظم جرائم کی تاریخ کا سب سے بڑا اسکینڈل
عامر ایچ قریشی
عامر ایچ قریشی
پاکستان کے منظم جرائم کی تاریخ کا سب سے بڑا اسکینڈل جسے امریکن FBI کے سابق ایجنٹ ایلن ایزل نے "دنیا کا سب سے بڑا دھوکا" قرار دیا اور اس پر اپنی کتاب "A Book on Diploma Mills" بھی تحریر کی-آئیں آج AXACT کمپنی کی کہانی کا اعادہ کریں- سن 1997 میں AXACT بنائی گئی۔شعیب احمد شیخ نامی شخص اسکا مالک تھا- کراچی کے پوش علاقے DHA کے کریسٹ ٹاور میں اسکا ہیڈ آفس تھا اور ملک کے بڑے شہروں میں اسکے دفاتر تھے- اس کمپنی کا بظاھر کام سافٹ ویئر سازی/ایکسپورٹ تھا- اسکے ملازمین کی تعداد دو ہزار سے زائد تھی جو 24 گھنٹے کی تین شفٹوں میں کام کرتے تھے-
انکا اصل کام جعلی ڈگریاں اور سرٹیفکیٹس بیچنا تھا- انتہائی ڈائنامک اور دیدہ زیب ویب سائٹس پر دنیا بھر کی یونیورسٹیز اور کالجز میں داخلوں, آن لائن کورسز, ڈگریز اور سرٹیفکیٹس کی فراہمی کی بابت معلومات درج ہوتیں- یہ ویب سائٹس لٹویا اور سائپرس کے پراکسی سرورز کے ذریعے ہوسٹ ہوتی تھیں- کمال کا معرکہ یہ کہ عالمی شہرت رکھنے والے امریکی TV چینل CNN کے سیگمنٹ CNNiReport پر امریکن اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے انکی تصدیق کا سرٹیفکیٹ لگا ہوا تھا جس پر سیکرٹری آف اسٹیٹ John Carry کے دستخط تھے- AXACT کے اس بزنس کی ریڑھ کی ہڈی انکا اعلیٰ تعلیم یافتہ سیلز اسٹاف تھا (بالخصوص لڑکیاں) جو انگلش اور عربی زبانوں پر عبور رکھتے تھے- دنیا کی بہت ساری آفشور کمپنیوں کا نیٹ ورک بھی انکے ساتھ منسلک تھا- کہا جاتا ہے کہ انکی ڈگریز اور سرٹیفکیٹس کی قیمت 350 ڈالر سے 4,000 ڈالر تک تھیں- انہوں نے صرف امریکہ میں 140 ملین ڈالرز کی جعلی ڈگریاں فروخت کیں-
چونکہ جعلسازی مستقل بنیادوں پر چلتے رہنے والا کام نہیں ہوتا اسلئے سن 2010 کے بعد سے امریکہ میں انکی جعلی ڈگریوں کے کیسز رپورٹ ہونا شروع ہوگئے- پاکستان میں ان دنوں آئی ٹی سے متعلقہ قوانین نہ ہونے کی وجہ سے 2013 تک انکے اس غیر قانونی دھندے پر پردہ پڑا رہا لیکن اندرون خانہ AXACT کمپنی امریکن کیسز کی رپورٹس, خبروں اور پیسے واپس مانگنے والے متاثرین کی مسلسل فون کالز اور ای میلز کی وجہ سے شدید پریشانی کا شکار تھی- لیکن انکا اصل بھانڈہ AXACT چھوڑ کر دبئی چلے جانے والے انکے کوالٹی کنٹرول افسر "یاسر جمشید" نے پھوڑا جو کمپنی کا بیشمار ڈیٹا بشمول متاثرین کی فہرستیں ساتھ لیکر دبئی نکل گیا- اسکے بقول وہ AXACT کے جعلسازی کے دھندے کو سمجھ گیا تھا اور متاثرین اور اداروں کی مدد کرنا چاہتا تھا- اسوقت تک AXACT کا مالک شعیب شیخ ایک اثر رسوخ رکھنے والا والا شخص بن چکا تھا اور پاکستان کی مشہور شخصیات, حتیٰ کہ جاسوسی کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی میں بھی اسکے روابط تھے- سن 2012 میں شعیب نے ایک بیان میں بتایا کہ وہ TV براڈکاسٹنگ کے شعبے میں قدم رکھ رہا ہے اور جلد ایک ایسا TV چینل لانچ کرنے والا ہے جو صرف مثبت رپورٹنگ کیا کرے گا- سن 2013 میں شعیب جعلساز نے BOL نامی ٹی وی چینل قائم کر دیا- لیکن AXACT کے خلاف پاکستان میں جعلسازی کے مقدمات قائم ہونے کی وجہ سے BOL کی لانچنگ کی تاریخیں آگے سے آگے بڑھتی رہیں اور بالاآخر 19 اکتوبر 2016 میں BOL نیوز چینل نے اپنی باقائدہ ٹرانسمیشن کا آغاز کر دیا- ان دنوں PML-N کی حکومت تھی جسکو 2013 میں آغاز سے ہی مخالفین کی طرف سے شدید مخالفت اور مزاحمت کا سامنا تھا- شعیب کی ہمدردیاں PTI کیساتھ تھیں اور کالے ڈالے والے ادارے کیساتھ بہترین تعلقات بھی تھے, شنید ہے کہ اسوقت کے ڈی جی ISI لیفٹننٹ جنرل رضوان اختر نے شعیب کو رپورٹنگ نظریات قائم کرنے کیلئے رہنمائی اور معاونت فراہم کی- ویسے بھی ادارہ GEO نیوز کی مقبولیت اور ریٹنگ سے شدید خائف تھا اسلئے ٹکر دینے اور مخالف نظریات قائم کرنے کیلئے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا- یہ بھی سننے میں آیا کہ AXACT کے مقدموں کی وجہ سے سے مالی بحران بھی پیدا ہو چکا تھا اور BOL کی لانچنگ میں پہلے ہی بہت تاخیر ہو چکی تھی اسلئے ادارے کے کہنے پر BT کے ملک ریاض نے بھی مالی معاونت فراہم کی تھی، مالی بحران بھی پیدا ہو چکا تھا اور BOL کی لانچنگ میں پہلے ہی بہت تاخیر ہو چکی تھی اسلئے ادارے کے کہنے پر BT کے ملک ریاض نے بھی مالی معاونت فراہم کی تھی-
جولائی 2018 میں اسلام آباد کے ڈسٹرکٹ سیشن جج جناب چودھری ممتاز حسن کی عدالت سے جعلسازی کے مقدمے میں شعیب شیخ اور اسکے 22 ساتھیوں کو 20-20 سال قید اور جرمانوں کی سزا سنائی گئی جبکہ شعیب شیخ کی بیوی عائشہ شعیب, کرنل (ریٹائرڈ) جمیل احمد اور لیفٹننٹ کرنل (ریٹائرڈ) محمّد یونس کو شک کا فائدہ دیکر بری کر دیا گیا-
دلچسپ اور حیران کن امر یہ کہ اس سزا سے پہلے سال 2016 میں اسلام آباد کے ہی ایک ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج پرویز القادر میمن نے شعیب شیخ کو اسی مقدمے میں بری کر دیا تھا- بعد ازاں اسی جج نے بدعنوانی انکوائری کے دوران شعیب شیخ سے بری کرنے کے عوض پچاس لاکھ روپے بطور رشوت لینے کا اعتراف کر لیا اور نوکری سے نکالا گیا تھا بعد ازاں شعیب کی طرف سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں نظرثانی کی پٹیشنز دائر ہوئیں اور اسکی سزا 20 سال قید سے کم کرکے 7 سال قید کر دی گئی- سال 2015 سے قید شعیب شیخ اور دیگران کو سزا 2018 میں سنائی گئی اور اسوقت 3 سال کا عرصۂ قید میں گزر چکا تھا-
سال 2017 میں عمیر حمید پاکستانی کو امریکہ کی ایک عدالت نے AXACT فراڈ کا ساتھی ہونے پر 21 ماہ قید کی سزا سنائی تھی-
دوستو یہ تھی BOL چینل کے بننے اور اسکے جرائم پیشہ گروہ کی داستان-
افسوس یہ کہ مخصوص مفادات کی خاطر ہمارے قومی ادارے جرائم پیشہ گروپوں کیساتھ ملکر وینچر کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔
واپس کریں