اسرائیلی فوج کا فلسطینیوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کا انکشاف

اسرائیلی فوج غزہ میں بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کررہی ہے جنہیں ’شاوِش‘ کہا جاتا ہے، اسرائیلی فوج روزانہ کم از کم 6 مرتبہ ان کا استعمال کرتی ہے۔
اس بات کا انکشاف ایک اسرائیلی فوجی نے اسرائیلی اخبار ہارٹز میں لکھے گئے مضمون میں کیا، اخبار کی جانب اس اسرائیلی فوجی کا نام خفیہ رکھا گیا ہے۔
اس نامعلوم اسرائیلی فوجی نے اپنے مضمون میں لکھا کہ وہ 9 ماہ تک غزہ جنگ میں شامل رہا اور اس نے پہلی مرتبہ دسمبر 2023 میں ’ماسکیٹو پروٹوکول‘ کے بارے میں سنا، اسرائیلی فوج میں فلسطینیوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کی پالیسی کو ’ماکیسٹو پروٹوکول‘ کہا جاتا ہے۔
ماسکیٹو پروٹوکول! اسرائیلی فوج کا فلسطینی شہریوں پر ظلم کا نیا حربہ کیا ہے؟
اسرائیلی فوجی نے لکھا کہ اس وقت اس پالیسی کو آپریشنل ضرورت کے طور پر پیش کیا گیا اور اس کی وجہ فوج میں تربیت یافتہ کھوجی کتوں کی کمی کو بتایا گیا۔
فوجی نے لکھا کہ حقیقت میں اس وقت اسرائیلی فوج میں تربیت یافتہ کھوجی کتوں کی کوئی کمی نہیں تھی جو مکانات اور سرنگوں میں بارودی مواد کا پتا لگاسکتے تھے۔
اس کے باوجود اسرائیلی فوج نے مکانات اور سرنگوں کو ممکنہ دھماکا خیز مواد اور مزاحمت کاروں سے کلیئر کروانے کے لیے معصوم فلسطینیوں کا استعمال کیا، انسانی ڈھال کے طور پر استعمال ہونے والے ان فلسطینیوں کو اسرائیلی فوجی ’شاوِش‘ کہتے ہیں۔
اسرائیلی فوجی نے اپنے مضمون میں لکھا کہ آج غزہ میں اسرائیلی فوجی کسی بھی مکان میں شاوش کے بغیر داخل نہیں ہوتے۔ اسرائیلی فوج کی ہر پلاٹون میں ایک، ہر کمپنی میں 4، ہر بٹالین میں 12 اور ہر بریگیڈ میں کم از کم 36 شاوش ہوتے ہیں یعنی اسرائیلی فوج کے پاس غزہ میں غلاموں کی ایک ذیلی فوج ہے۔
فوجی نے لکھا کہ وہ اُس میٹنگ میں موجود تھا جس میں ایک بریگیڈ کمانڈر نے ڈویژن کمانڈر کے سامنے ماسکیٹو پروٹوکول کو ایک اہم کامیابی اور آپریشنل ضرورت کے طور پر پیش کیا۔ فوجی نے لکھا اسے یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ اس پالیسی کو ایک معمول کی چیز سمجھا گیا۔
اسرائیلی فوجی لکھا کہ یہ جواز بھی غلط ہے کہ ماسکیٹو پرٹوکول کا استعمال فوجیوں کی حفاظت کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس نے لکھا کہ فوج ایک عرصے سے خطرناک مکانات اور سرنگوں میں داخل ہونے کے لیے طے شدہ طریقہ کار اختیار کرتی رہی اور ایسی صورتحال میں روبوٹس، ڈرونز یا تربیت یافتہ کتوں کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن اس میں وقت لگتا ہے۔
فوجی نے لکھا کہ ہائی کمانڈ کو فوری نتائج درکار ہوتے ہیں اس وجہ سے شاوش کو استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی اسرائیلی فوج معصوم فلسطینیوں کو اس لیے انسانی ڈھال بناتی ہے کیونکہ اس سے وقت کی بچت ہوتی ہے۔
اسرائیلی فوجی نے لکھا کہ اس طرح فلسطینیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا جاتا ہے اور ان پر مکمل طور پر بھروسہ بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ تربیت یافتہ نہیں ہوتے انہیں چھپے ہوئے بارودی مواد کو کھوجنا نہیں آتا اور پھر وہ اپنی مرضی سے یہ کام نہیں کررہے ہوتے۔
معاملہ دبانے کی کوشش
اسرائیلی فوجی کے مطابق ملڑی پولیس نے اس حوالے سے 6 واقعات پر تحقیقات کا اعلان کیا ہے جو کہ دراصل معاملے کو دبانے کی کوشش ہے، اگر فوج واقعی اس حوالے سے تحقیقات کرنا چاہتی ہے تو اسے ایسے ہزار سے زیادہ کیسز کی تحقیقات کرنی ہوگی، صرف 6 مقدمات پر تحقیقات کرکے چند افراد کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا اور باقیوں کے بچالیا جائے گا۔
اسرائیلی فوجی نے لکھا کہ فوج کے اعلیٰ ترین عہدے دار ایک سال سے زائد عرصے سے ماسکیٹو پروٹوکول کے استعمال کے بارے میں جانتے تھے لیکن کسی نے اسے روکنے کی کوشش نہ کی بلکہ اسے ایک آپریشنل ضرورت کے طور پر پیش کیا گیا۔
اسرائیلی معاشرے پر اثرات
اپنے مضمون میں اس نامعلوم اسرائیلی فوجی نے لکھا کہ اس نے اور کچھ دیگر فوجیوں نے اس حوالے سے مزاحمت کی کوشش کی لیکن ان کی کسی نے نا سنی۔
اسرائیلی فوجی نے لکھا کہ یہی ہوتا ہے کہ جب آپ کو گولیاں چلانے کا شوق ہو، جب آپ تھک چکے ہوں، جب آپ ایک ایسی نا ختم ہونے والی جنگ لڑ رہے ہوں جو مغویوں کو زندہ سلامت بازیاب کروانے میں ناکام رہے۔ ایسے میں آپ صحیح اور غلط کی تمیز کھودیتے ہیں۔
اسرائیلی فوجی نے لکھا کہ کیا ہر اسرائیلی ماں جو اپنے بیٹے کو غزہ میں لڑنے کے لیے بھیجتی ہے اس بات کو سمجھتی ہے کہ ایک دن وہ اپنے باپ یا بھائی کی عمر کے فلسطینی کو پکڑ کر اسے کسی بارودی سرنگ میں اپنے آگے چلنے پر مجبور کرے گا۔
فوجی نے لکھا کہ ہم نہ صرف اسرائیلی فوجیوں کے تحفظ میں ناکام رہے ہیں بلکہ ہم نے ان کی اخلاقیات اور ضمیر کو بھی نقصان پہنچایا ہے اور اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ جب جنگ سے لوٹیں گے تو ہماری اجتماعی سوچ اور معاشرے پر کس طرح اثر انداز ہوں گے۔
اسرائیلی اخبار ’ہارٹز‘شاوش
واپس کریں