دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
جب دنیا عسکری سرمایہ داری کے شکنجے میں ہو اور ریاستیں اپنے شہریوں کی لاشوں سے منافع کمائیں
No image (خصوصی تحریر، خالد خان )دنیا ایک نازک مگر فیصلہ کن موڑ پر کھڑی ہے، جہاں جنگ محض ایک جغرافیائی کشمکش نہیں رہی بلکہ ایک منظم عالمی سرمایہ دارانہ حکمتِ عملی بن چکی ہے۔ ہم ایک ایسے عہد میں داخل ہو چکے ہیں جہاں عسکری سرمایہ داری یعنی militarised capitalism نے نہ صرف معیشت بلکہ سماجی اور سیاسی شعور کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ یمن پر امریکی حملے، غزہ میں اسرائیلی بربریت، یوکرین کی جنگ، لاطینی امریکہ میں امریکی مداخلت، افریقہ میں بغاوتوں کی آڑ میں فرانس اور روس کی پراکسی لڑائیاں، اور چین کے گرد بحری فوجی گھیرا—یہ سب محض اتفاق نہیں، بلکہ ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت ابھرتا ہوا عالمی منظرنامہ ہے، جس میں امن کو ایک غیر ضروری تعیش سمجھا جانے لگا ہے۔
پاکستان، جو اپنی تاریخ کے بیشتر حصے میں بیرونی جنگوں کا آلۂ کار رہا ہے، آج ایک مرتبہ پھر اسی بند گلی میں داخل ہو رہا ہے جہاں ریاست کا ہر فیصلہ "قومی سلامتی" کے نام پر عسکری ترجیحات کے تابع ہو چکا ہے۔ ہم ایک ایسے خطے میں بستے ہیں جہاں افغانستان سے ایران تک اور کشمیر سے خلیج تک ہر جگہ بارود کی بو ہے اور مفادات کی آگ ہے۔ مگر اس بار فرق صرف اتنا ہے کہ عالمی نظام کا پرانا توازن ٹوٹ چکا ہے، اور ایک نیا مگر زیادہ خونخوار ورلڈ آرڈر جنم لے رہا ہے۔
1945 کے بعد قائم ہونے والا لبرل عالمی نظام آج اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔ اس نظام کی بنیاد تین ستونوں پر کھڑی تھی: سوویت یونین اور دیگر اشتراکی ریاستوں کے گرد نیٹو کے ذریعے عسکری دباؤ؛ تیسری دنیا کی نوزائیدہ ریاستوں کو سامراجی اثر میں رکھنے کے لیے CIA اور دیگر ایجنسیوں کا استعمال؛ اور فری مارکیٹ اکانومی کا وہ طلسم جو تیسری دنیا کے قدرتی وسائل کو مغرب کے قدموں میں لاکر رکھ دے۔ آج یہ تینوں ستون لرز رہے ہیں۔ اب مغرب کی صنعتی طاقت تیزی سے مشرقی ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کی طرف منتقل ہو چکی ہے۔ BRICS اتحاد آج دنیا کی مجموعی GDP کا 35.6 فیصد پیدا کر رہا ہے، جب کہ یورپ اور امریکہ کا حصہ گھٹ کر 30 فیصد رہ گیا ہے، اور آنے والے سالوں میں یہ 27 فیصد تک آ سکتا ہے۔
یہ اعداد و شمار محض معاشی تبدیلی کا اشارہ نہیں، بلکہ عالمی طاقت کے نئے توازن کی خبر دے رہے ہیں۔ امریکہ، جس نے دو صدیوں تک دنیا کو فری ٹریڈ کا درس دیا، آج خود تجارتی دیواریں کھڑی کر رہا ہے۔ چین، جسے کبھی امریکی سرمایہ داری کی لیبر فیکٹری سمجھا جاتا تھا، اب ٹیکنالوجی، دفاع، اور معاشی میدان میں ایک چیلنج بن چکا ہے۔ اسی چیلنج کے خوف سے امریکہ نے چین، میکسیکو، جرمنی اور یہاں تک کہ اپنے پرانے اتحادیوں پر تجارتی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ یوکرین میں جنگ کے بعد نیٹو کے کردار پر بھی سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ جرمنی، جس نے دوسری جنگ عظیم کے بعد عسکریت کو طاق پر رکھا تھا، آج 500 ارب یورو کے عسکری بجٹ کے ساتھ دوبارہ ہتھیاروں سے لیس ہو رہا ہے۔
اسی دوران یورپ میں دائیں بازو کی نسل پرستانہ طاقتیں نہ صرف سیاسی منظرنامے پر چھا رہی ہیں بلکہ پناہ گزینوں، مسلمانوں، اور یہودیوں کے خلاف نفرت کا بازار بھی گرم ہو چکا ہے۔ جدید یورپ، جس نے Enlightenment کا خواب دکھایا، آج ایک بار پھر نسل، مذہب اور قوم پرستی کی تاریک گلیوں میں بھٹک رہا ہے۔ مارکو روبیو جیسے امریکی سیاستدان جنوبی افریقہ کے گوروں کے "حقوق" کی بات کرتے ہیں مگر فلسطین کے بچوں کے لیے ایک لفظ نہیں نکالتے۔ دنیا میں ایک بار پھر انسانی حقوق نہیں، بلکہ "کس نسل کا خون سستا ہے"—اس کا تعین کیا جا رہا ہے۔
پاکستان اس پوری گتھی کا ایک خاموش مگر خطرناک کردار ہے۔ 1953 میں SEATO اور CENTO معاہدوں کے ذریعے ہم نے اپنی خودمختاری کو مغرب کے عسکری مقاصد کے لیے گروی رکھ دیا۔ آج بھی یہی سلسلہ جاری ہے۔ سی پیک ہو یا گرین پاکستان انیشیٹیو، ریاستی پالیسیاں عوامی مفاد سے زیادہ ریاستی مفاد، اور ریاستی مفاد بھی صرف ایک مخصوص ادارہ جاتی دائرے کے گرد طواف کر رہا ہے۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ ہو یا موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف بین الاقوامی فنڈنگ—ہر جگہ ریاست کا مرکزی ہدف عام شہری نہیں بلکہ اپنا عسکری اور انتظامی ڈھانچہ بن چکا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس عسکری سرمایہ داری کے شکنجے سے نکل سکتے ہیں؟ اس کا جواب ایک نعرے میں نہیں، بلکہ ایک اجتماعی فکری اور سیاسی مزاحمت میں پوشیدہ ہے۔ صرف اس وقت جب شہری ریاست سے سوال کریں گے، جب صحافت بازاری سازشوں سے نکل کر عوامی شعور کی آواز بنے گی، جب نوجوان تاریخ اور معیشت کو سمجھ کر سوچیں گے کہ ہم کون تھے، کہاں کھڑے ہیں اور کہاں جانا ہے—تب جا کے یہ مکروہ کھیل ختم ہو گا۔
ورنہ تب تک دنیا کے بڑے دارالحکومتوں میں جنگ کے سوداگر بیٹھے رہیں گے، اور ہمارے شہروں میں مائیں اپنے بچوں کی لاشیں اٹھاتی رہیں گی۔
انسانیت کے خلاف یہ خفیہ معرکہ جنگی معیشتوں کی طے شدہ جنگ ہے۔ اگر ہم نے اس رجعتی عسکری سرمایہ داری کے خلاف متبادل بیانیہ نہ تراشا، تو ہماری آنے والی نسلیں بھوک، جبر، اور مسلسل جنگ کی غلامی میں پروان چڑھیں گی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان میں چلنے والی ماحولیاتی، جمہوری، اور مزاحمتی تحریکوں کو عالمی امن، سوشلزم، اور انسانی اقدار کی عالمی تحریکوں سے جوڑا جائے۔ یہی واحد راستہ ہے جس سے ہم نہ صرف اپنی زمین اور وسائل کو بچا سکتے ہیں، بلکہ اپنے خوابوں کو بھی ایک پرامن، منصفانہ اور انسان دوست دنیا میں ڈھال سکتے ہیں۔
واپس کریں