دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
عسکری قیادت کے فیصلے
No image پاکستان کے سنگین ترین مسائل میں دہشت گردی بلاشبہ سرفہرست ہے۔ قومی معیشت کی بحالی کی کوششوں کا پائیدار بنیادوں پر استوار ہونا بھی دہشت گردی کے خاتمے سے مشروط ہے لہٰذا ضروری ہے کہ ملک بھر کے عوام کے تعاون سے اس مسئلے پر قابو پایا جائے۔ تاہم موجودہ صورت حال یہ ہے کہ گلوبل ٹیررازم انڈیکس کی ایک ماہ پہلے جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق دنیا کے 163ملکوں میں دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان دوسرے نمبر پر آگیا ہے۔گزشتہ چند برسوں کے دو ران افواج پاکستان کی مسلسل کارروائیوں اور جانی قربانیوں کے باوجود دہشت گرد حملوں میں اضافہ دیکھا جارہا ہے، 2023 کے مقابلے میں2024 میں ان واقعات میں45 فیصد اضافہ ہوا۔ رواں سال بھی دہشت گردی کے کئی بڑے واقعات پیش آچکے ہیں۔یہ صورت حال یقینا ناقابل برداشت ہے اور اس پر قابو پانے کیلئے ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت کی جانب سے حالات کے مطابق زیادہ مؤثر حکمت عملی کا نفاذ اور نتیجہ خیز اقدامات کا عمل میں لایا جانا لازمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ روز کور کمانڈرز کانفرنس میں یہ مسئلہ سب سے زیادہ اہمیت کے ساتھ زیر غور آیا۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ملک کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرنے والوں سے عوام کی حمایت اور تعاون کے ساتھ پوری قوت سے نمٹنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کے نفاذ میں تمام ادارے تعاون یقینی بنائیں۔ کور کمانڈرز کانفرنس نے واضح کیا کہ غیر ملکی گٹھ جوڑ اور انتشار پھیلانے کی کوششیں بے نقاب ہوچکی ہیں لہٰذاامن دشمنوں کوکسی بھی قسم کی معافی نہیں دی جائے گی ۔ فورم نے دہشت گردی کے خلاف پوری قوم کے تعاون سے مشترکہ نقطہ نظر کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا۔شرکائے کانفرنس نے اعادہ کیا کہ ریاستی ادارے آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے قانون پر پوری استقامت سے عمل درآمد کریں گے۔قانون کی عملداری میں کسی قسم کی نرمی اور کوتاہی نہیں کی جائے گی۔آرمی چیف نے پاکستان بھر میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت قائم شدہ ضلعی رابطہ کمیٹیوں کے آغاز کو بھی سراہا۔آرمی چیف نے بغیر کسی رکاوٹ کے نیشنل ایکشن پلان کے تیز تر نفاذ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کے نفاذ میں حکومتی ہدایات کے مطابق تمام ادارے پائیدار ہم آہنگی، مربوط کوششوں اور تعاون کو یقینی بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ پاک فوج حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دہشت گردوں کی مالی اعانت کیخلاف سخت قانونی اقدامات میں مکمل تعاون فراہم کرے گی کیونکہ غیر قانونی سر گرمیاں دہشت گردی کی مالی معاونت سے اندرونی طور پر جڑی ہوئی ہیں۔ کور کمانڈرز کانفرنس کی ان تفصیلات سے یہ خوشگوارحقائق سامنے آتے ہیں کہ عسکری قیادت کے نزدیک دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹنے کیلئے پوری قوم کے تعاون اور حمایت کا حصول اور اس مقصد کیلئے عمل میں لائے جانے والے تمام اقدامات کا آئین اور قانون کے دائرے میں رکھا جانا لازمی ہے۔ان اہداف کو حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ متاثرہ علاقوں میں عوام کی ان حقیقی محرومیوں اور جائز شکایات کا جلدازجلد ازالہ کیا جائے جن کی وجہ سے بسا اوقات لوگ دہشت گردوں کو اپنے حقوق کا علم بردار سمجھنے لگتے ہیں ۔ عام لوگوں کی زندگیوں کو آسان بنایا جائے اور متاثرہ علاقوں کے عوامی مسائل ہنگامی بنیادوں پر حل کیے جائیں۔ دہشت گردی کے شبہ میں گرفتاریاں بھی آئین اور قانون کے تقاضوں کے مطابق کی جائیں۔ شہریوں کو لاپتہ کرنے کا طریق کار ان کے تمام اہل خانہ اور اعزاء واقرباء کو جس عذاب میں مبتلا کردیتا ہے، وہ ریاست کے خلاف منفی جذبات کو ہوا دینے کا ایک بنیادی سبب اور آئین وقانون سے صریحاً متصادم ہے لہٰذا ضروری ہے کہ اس طریق کار کو بلاتاخیر ترک کردیا جائے۔دہشتگردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان پر بلا تاخیر، بلا تفریق، اور بھرپور عملدرآمد کی ضرورت تو ہے ہی۔ نیشنل ایکشن پلان کا ازسرنو جائزہ لینا اور اسے موجودہ حالات سے ہم آہنگ کرنا بھی ناگزیر ہو چکا ہے۔ خاص طور پر دہشتگردوں کی مالی معاونت، سہولت کاری، اور بیرونی روابط کا قلع قمع کرنے کے لیے واضح پالیسی اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
دہشت گردی واقعتاً ناسور کی شکل اختیار کر چکی ہے۔11 مارچ 2025ء کو جعفر ایکسپریس کے اغواء کے بعد اگر مگر اور لیکن کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔تمام پارٹیوں کو دہشت گردی کے خلاف اسی طرح سے متحد ہونا ہوگا جس طرح 2014ء میں سانحہ اے پی ایس پشاور کے بعد اتحاد اور اتفاق نظر آیا تھا۔افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ تحریک انصاف کی طرف سے سانحہ جعفر ایکسپریس کے بعد قومی سلامتی کمیٹی کے پارلیمانی اجلاس میں شرکت نہیں کی گئی۔اس کا بائیکاٹ کر دیا گیا۔تحریک انصاف کے تحفظات ہو سکتے ہیں مگر یہ اجلاس ایسے تحفظات کے اظہار کا کوئی موقع نہیں تھا۔بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے کہا گیا کہ ایک مرتبہ پھر کمیٹی کا اجلاس بلا لیا جائے۔جس میں اپوزیشن یعنی تحریک انصاف بھی شامل ہو۔وہ اجلاس ہو چکا،تحریک انصاف نے اس میں شرکت نہ کر کے بڑی نادانی کی ہے۔ایسے ہی ایک اور اجلاس کی ضرورت نہیں ہے۔اجلاس میں بریفنگ دی جا چکی، تقاریر ہو چکیں، لائحہ عمل بھی طے کیا گیا۔تحریک انصاف اس کی حمایت کر دے تو بس وہ کافی ہوگا۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ سول، عسکری، سیاسی، اور عدالتی ادارے ایک صفحے پر آئیں۔ دہشتگردی کی اس نئی لہر کو شکست دینے کے لیے سیاسی اتفاقِ رائے، مربوط حکمت عملی، اور عوامی حمایت نہایت اہم ہیں۔ میڈیا کو بھی چاہیے کہ وہ قومی مفاد میں عوام میں آگاہی پیدا کرے اور فرقہ واریت، نسلی یا علاقائی تعصبات کو فروغ دینے والے بیانیے کو رد کرے۔
تحریک انصاف سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں کو بھی اب حقیقت کا ادراک کرنا ہو گا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ محض حکومت یا کسی ایک ادارے کی نہیں، بلکہ پوری قوم کی جنگ ہے۔ اس جنگ میں کامیابی صرف اس صورت ممکن ہے جب ہم سب سیاسی اختلافات سے بالا تر ہو کر پاکستان کی سالمیت، امن اور ترقی کے لیے متحد ہوں۔
یہی وقت ہے قومی مفادات کو ترجیح دینے کا، دہشتگردوں کو شکست دینے کا، اور پاکستان کو امن و استحکام کی راہ پر گامزن کرنے کا۔ کیونکہ پاکستان کا مقدر پرامن، مستحکم اور خوشحال ریاست ہے جو صرف اور صرف ہمارے اجتماعی عزم اور عملی اقدامات سے ہی ممکن ہے۔
واپس کریں