
کچھ بھی تو نہیں بدلا ہے۔ جو کچھ میرے بچپن میں تھا، وہی کچھ میں بڑھاپے میں بھی دیکھ رہا ہوں۔ بلکہ اب کچھ زیادہ ہی دیکھ رہا ہوں۔ اس ملک میں تو انقلاب نہیں برپا ہو سکتا۔ انقلاب کردار بھی چاہتا ہے اور سر بھی مانگتا ہے۔ یہ دونوں کام ہمارے بس کے نہیں ہیں۔ آخری امید ارتقاء تھی، وہ بھی نہیں رہی۔ ارتقاء بجائے آگے کے پیچھے کی سمت چل پڑا۔ بچپن میں نماز کے بعد، خصوصاً جمعہ اور عید بقر عید کے مواقع پر مولانا یہود و نصاریٰ کو بد دعائیں دیتا، ان کی تباہی کی دعا کرتا اور فلسطین اور کشمیر کی آزادی کی دعائیں مانگتا۔ ہم تمام مہتدی با آواز بلند آمین کہتے تھے۔ نہ آج تک یہود و نصاریٰ تباہ ہوئے اور نہ ہی کشمیر اور فلسطین آزاد ہو سکے۔ اس دوران متعدد اسلامی ممالک اجڑ گئے اور یہود و نصاریٰ کی غلامی میں چلے گئے۔ مولانا نے کبھی بھی سائنس، ٹیکنالوجی، علم، سامان حرب کی تیاری، اتحاد بین المسلمین اور جہاد کی بات نہیں کی تھی۔ مولانا کی سوئی دعا پر اٹکی ہوئی تھی جو آج بھی ہے۔ مولانا کی بد دعاؤں میں جہاں شدت آئی ہے، وہاں مہتدیوں کی آمین بھی بلند آہنگ ہوئی ہے۔ مگر مجال ہے کہ پھر بھی مسلم اُمہ کی تقدیر بدلی ہو۔ مولانا کی تربیت کا نتیجہ البتہ یہ نکلا کہ سوشل میڈیا کے فلیٹ فارمز بھی مساجد میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ ان مساجد میں خود ساختہ مولانے جنہیں تکنیکی زبان میں ایڈمن کہا جاتا ہے، دعا اور بد دعا پھینکتے ہیں اور سب کو اسے شیئر کرنے کا کہتے ہیں۔ یوں مسجدی مولانا اور ڈیجیٹل مولانا دونوں اپنے فرائض سے فارغ ہو کر لمبی تان کر سو جاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک ڈیجیٹل دعا اور بد دعا جو فلسطین کے تناظر میں وائرل ہوئی ہے، ذیل میں ملاحظہ فرمایئے:
"فلسطین کے لیے سورہ فیل کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ براہ کرم اسے 11 بار پڑھیں اور اسے اپنے مسلم گروپوں اور رابطوں میں شیئر/فارورڈ کریں۔ عاجزانہ گزارش ہے کہ زنجیر مت توڑیں۔
جیسے ہی میں نے اسے موصول کیا، آپ کو آگے بھیج دیا۔"
وہ قوم جو دعاؤں کے زور پر آزاد ہونے پر یقین رکھتی ہے، دنیا ایسے قوم کا پھر فاتحہ ہی پڑھتی ہے۔
واپس کریں