
پاکستان اُن خوش نصیب ممالک میں شامل ہے جہاں زرخیز زمین، چار موسم، وافر پانی اور محنتی کسان موجود ہیں۔ اس ملک کی شناخت ہی زراعت رہی ہے — اور شاید ہمیشہ رہے گی۔ مگر آج کا المیہ یہ ہے کہ اسی زراعت کی بنیادیں کھوکھلی ہو چکی ہیں، اور جو کسان سب کو کھلاتا ہے، وہ خود فاقہ کشی پر مجبور اور قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔ پاکستان کی معیشت کا ستون ہمیشہ کسان رہا، مگر وقت نے ثابت کیا کہ ہمارے حکمرانوں نے اپنے مفادات کی بنیاد اسی کسان کے استحصال پر رکھی۔
ایک کسان جب صبح سورج نکلنے سے پہلے جاگتا ہے، زمین میں بیج ڈالتا ہے، سورج کی تپش سہتا ہے، بارش کی دعا کرتا ہے، کیڑے مار دواؤں پر خرچ کرتا ہے، کھاد، ڈیزل، بجلی اور مزدوروں کی اجرت ادا کرتا ہے — تو وہ یہ خواب دیکھتا ہے کہ فصل تیار ہو گی، منڈی میں اچھی قیمت ملے گی، بچوں کی فیس ادا ہو گی، گھر کا چولہا جلے گا، اور شاید قرض بھی اتر جائے گا۔ مگر جب وہی فصل منڈی پہنچتی ہے، تو قیمت اتنی کم ملتی ہے کہ کسان کی آنکھوں میں خوابوں کی جگہ آنسو ہوتے ہیں۔
2025 میں بھی کسان کے حالات سدھرنے کے بجائے مزید خراب ہو چکے ہیں۔ یوریا کھاد کی فی بوری قیمت 3600 روپے سے تجاوز کر چکی ہے، ڈی اے پی بارہ ہزار روپے میں بھی دستیاب نہیں، اور معیاری بیج کی فراہمی محض ایک خواب بن چکی ہے۔ بجلی اور ڈیزل کے نرخ آسمان کو چھو رہے ہیں، جس کے باعث فی ایکڑ لاگت ساٹھ ہزار روپے سے بھی بڑھ چکی ہے۔ جب کسان فصل لے کر بازار جاتا ہے تو آڑھتی اور کمیشن مافیا اس کے استحصال کے لیے پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔ حال ہی میں سندھ میں گندم کی فی من قیمت چار سو روپے کم ہو کر 2460 روپے رہ گئی، جبکہ پنجاب میں نئی فصل کے لیے 2200 سے 2300 روپے فی من کی باتیں ہو رہی ہیں — جو پیداواری لاگت سے بھی کم ہیں۔
یہ وہی ملک ہے جہاں اسمبلیوں میں بیٹھے نمائندے دن رات کسانوں کی فلاح کے دعوے کرتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ خود کھاد فیکٹریوں، شوگر ملز، دودھ، بیج اور کیمیکل کمپنیوں کے مالک ہیں۔ ایک طرف کسانوں سے سستی اجناس خرید کر منافع کماتے ہیں، دوسری طرف انہی اجناس کو دُگنی چوکنی قیمت پر عوام کو بیچتے ہیں۔ آٹا، چینی، گھی، دالیں، سبزیاں، دودھ اور انڈے — سب کی قیمتیں بڑھتی جاتی ہیں، مگر پیداوار دینے والے کو اس کی محنت کا کبھی صلہ نہیں ملتا۔
اس ظلم پر آواز بلند کرنے والا کوئی نہیں۔ نہ اسمبلی میں، نہ میڈیا پر، نہ عدالتوں میں، نہ پالیسی ساز اداروں میں۔ کسان بس ایک انتخابی نعرہ بن چکا ہے — ووٹ لینے کا ذریعہ۔ اس کے بعد وہ فراموش کر دیا جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ زمین بیچ کر شہروں کا مزدور بن جائے، یا مایوس ہو کر خودکشی کر لے۔
گزشتہ چند برسوں میں پاکستان میں زرعی زمینوں کو بے رحمی سے ہاؤسنگ سکیموں اور انڈسٹریل زونز میں تبدیل کیا گیا۔ سندھ میں تقریباً دو لاکھ ایکڑ زمین شوگر ملز، پاور پلانٹس اور رہائشی منصوبوں کی نذر ہو چکی ہے۔ پنجاب میں رئیل اسٹیٹ مافیا نے زرعی زمینوں پر اس طرح قبضہ جمایا کہ دیہی علاقے بھی کنکریٹ میں ڈھلتے جا رہے ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان کے پاس کوئی معقول زرعی پالیسی موجود نہیں۔ 2023-24 کے بجٹ میں زراعت کے لیے جو رقم مختص کی گئی، وہ جی ڈی پی کا صرف 0.3 فیصد تھی — جب کہ بھارت میں یہی شرح 2 فیصد اور چین میں 5 فیصد سے زائد ہے۔ کیا یہ کسی زرعی ملک کا رویہ ہو سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔
اگر کسان پیداوار دینا چھوڑ دے تو شہر کا ہر طبقہ بھوکا مر جائے گا۔ نہ چینی ہو گی، نہ آٹا، نہ سبزی، نہ پھل، نہ گوشت، نہ دودھ۔ سوال یہ ہے: کیا حکمران اس انجام سے ناواقف ہیں؟ ہرگز نہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ایک باشعور، خوشحال اور خودمختار کسان ان کے نظامِ زر و اقتدار کو چیلنج کر سکتا ہے۔ اسی لیے اسے جاہل، مقروض، مایوس اور مفلس رکھنے کی دانستہ کوشش کی جاتی ہے۔
یہ جنگ اب کسان کی بقا کی جنگ ہے۔ اگر وہ آج بھی خاموش رہا، تو کل صرف وہی نہیں، ملک بھی غذائی قلت، غربت، مہنگائی اور افراطِ زر کے اندھے کنویں میں گر جائے گا۔
فیصلہ اب کسان کے ہاتھ میں ہے — وہ ہل پھینک کر شہر کا غلام بنے یا اپنے حقوق کے لیے لڑے۔ وقت کم ہے، دشمن منظم ہے، اور ریاست خاموش تماشائی۔ اگر آج آواز نہ بلند کی گئی، تو کل کے مورخ صرف یہی لکھیں گے:
"پاکستان ایک زرعی ملک تھا، مگر اس کے حکمران کسان سے زیادہ کماتے تھے — اور اُسے بھوک سے مرنے دیتے تھے۔"
واپس کریں