مانسہرہ : جابہ کی شہید رابعہ کا چچا اور رسول اللہ ﷺ کا چچا

تیسری یا چوتھی کلاس کا طالب علم تھا ۔ایبٹ آباد اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ خبر آئی " شملہ پہاڑی پر ایک بھائی نے اپنی بہن کو اس کے دوست سمیت قتل کر دیا ہے ۔ مقتولہ سید فیملی سے تعلق رکھتی تھیں اور اپنے کلاس فیلو سے محبت کر بیٹھی تھی ۔ ہمارے علاقے جھنگی سیداں سے ان کا تعلق تھا ۔ میری والدہ جنازے کے لیے گئیں ۔ واپسی پر ان کی آنکھیں آنسوؤں سے تر تھیں ۔
ایک جملہ ان کا نہیں بھولتا ، کہنے لگیں ، اتنی سوہنڑی کڑی آئی جنجوں گلاب دے بوٹی دی لخت ہووے ،دل ڈرے کہ کری انسان دامیلا ہتھ نہ لگے ،ظالماں مار چھڑی " (اتنی خو بصورت لڑکی تھی کہ جس طرح گلاب کے پودے کی پھولوں سے لدی تازہ ٹہنی کسی نے توڑ کر مسل دی ہو ، احتیاط اتنی کروں کہ کہیں اسے گرد والے میلے ہاتھ نہ لگ جائیں ، ہائے ظالموں نے مار دی)
میں اپنے بچپن میں کئی بار اس لڑکی کی قبر پر گیا ۔ نیشنل پبلک اسکول جھنگی ایبٹ آباد میں پڑھتا تھا ۔ نازیہ ،عطیہ اور زینب میری کلاس فیلوز تھیں ۔ ہم کئی روز تک اسکول بریک میں اس کی باتیں کرتے رہے ۔ ایک روز ہم اکٹھے اس کی قبر پر دعا کے لیے گئے ۔ اس کی قبر کی لوح پر پنجتن پاک کے نام کنندہ تھے ۔
چھٹی کلاس میں میرا اسکول تبدیل ہوگیا ۔گورنمینٹ ہائی اسکول جھنگی ، ایوب میڈیکل کالج کے قریب تھا ۔ غازی بادشاہ کی زیارت میرے اسکول کے راستے میں آتی تھی ۔ واپسی پر اکثر اس کی قبر پر جاتا تھا ۔ مجھے قبرستان میں ڈر لگتا تھا لیکن اس لڑکی کی قبر پر مجھے عجیب سا سکون ملتا تھا ۔ ایک بے پناہ روحانی کشش تھی اس کی قبر پر ، کئی بار اس مظلوم کی قبر پر آنکھیں بھیگ گئیں ۔ ماں کا جملہ میرے ساتھ رہتا ۔
اس لڑکی نے میرے زندگی کو جانے انجانے میں بدل دیا تھا ۔ میں نے کبھی کسی کو محبت میں دھوکہ نہیں دیا ۔ کبھی کوئی کمٹمنٹ نہیں توڑی ، تعلق ہمیشہ سو فیصد رکھا ، محبت کرنے والوں کے ساتھ ہمیشہ محبت کے ساتھ کھڑا رہا ۔ اگر کوئی پوچھے تو یہی زندگی کا اصل سرمایہ ہے .
میری دو بہنیں ہیں ، ان کی شادی ہوئی تو میں نے دونوں بہنوں سے پوچھا کہ اگر ان کی کوئی پسند ہے تو بتا دیں ، میں آپ کے ساتھ کھڑا ہوں گا ۔ یہ بات ان کے رشتے طے ہونے سے پہلے اور طے ہونے کے بعد بھی کی ۔میری ایک ہمشیرہ کی شادی ہری پور میں اعوان فیملی میں ہوئی ۔ کچھ رشتے داروں نے بڑی اڑپنج کی لیکن ہم نے کوئی توجہ نہیں کی ۔ شادی کی تاریخوں پر بھی بڑا اختلاف ہوا لیکن ہم نے اس کی بھی پرواہ نہیں کی ۔ میرے بہنوئی نہایت نفیس اور ادب احترام کرنے والے انسان ہیں ۔ ان سے صرف ایک ہی تقاضا کیا تھا کہ شادی کے بعد اگر وہ پڑھنا چاہے یا کچھ کرنا چاہے تو پابندی نہیں ہونی چاہیے ۔ چھوٹی بہن خوش ہے ، اللہ کا شکر ہے ۔
میری اپنی باری آئی تو پشاور یونیورسٹی کی خوشبوؤں سے لبریز فضاؤں میں کہیں دلوں کا سودا ہوگیا ۔ وہ سید نہیں تھیں لیکن عاشورے پر منت پوری ہونے کے لیے امام بارگاہ میں علم کے پنجے پر سیب کی نیاز دی تھی ۔ ہمارا گھر خالص توحیدی مزاج ۔ قریبی دوست نے میری والدہ سے بات کی ، والدہ نے ابو سے ، ابو نے کہا کہ زندگی اس نے گزارنی ہے ۔ اس کا جو فیصلہ ، ہمارا وہی فیصلہ ۔۔۔۔ دونوں گھروں میں قبولیت تھی ۔۔۔ کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن شادی پھر بھی نہ ہو سکی ۔ قدرت اپنے رنگ عجیب طرح دکھاتی ہے ۔ خیر
تین چار برس پہلے ابو کی طبیعت بہت خراب تھی ، ڈاکٹرز نے ایک طرح سے تشویش کا اظہار کر دیا تھا ۔ ہم سب بہن بھائی گھر میں بیٹھے تھے ۔ ابو نے جو کچھ ان کے پاس تھا ، اسے تقسیم کرنے کی بات کی ۔ میں نے کہا اللہ آپ کو صحت اور لمبی زندگی دے ، آپ آرام کریں ۔ انہوں نے کہا کہ میری بیٹیوں فاطمہ اور عائشہ کے حصے کا خیال رکھنا ہے ۔ میں نے کہا کہ ان کا حق تو ان کا حق ہے ہی ، جو میرے حصے میں آتا ہے ، وہ بھی ان کو دے دیں ۔ اللہ نے مجھے بہت نوازا ہے ۔ ان کے چہرے پر اطمینان کی ایک لہر سی دوڑ گئی ۔ اللہ تعالی والد محترم کو صحت دے اور ان کا سایہ تادیر ہمارے سروں پر قائم رکھے ۔ آمین
پروفیسر قاضی طاہر علی الہاشمی علیہ الرحمہ والد محترم کے قریبی دوست تھے ۔ تین برس پہلے داغ مفارقت دے گئے ۔ قرآن اور اخلاق کے سانچے میں ڈھلے ہوئے اور دھلے ہوئے انسان تھے . نوے کی دہائی میں " سیدہ کی شادی غیر سید سے " کا مسئلہ اٹھا ، قاضی صاحب نے ایک کتاب لکھی ، "تحقیق نکاح سیدہ " ، کتاب کی تقریظ والد صاحب نے لکھی ۔ کتاب کا خلاصہ یہ تھا کہ سیدہ کی شادی غیر سید سے ہو سکتی ہے اور یہ ایک عجمی تصور ہے ۔ (اس پر میں کبھی الگ سے لکھوں گا کہ بر صغیر میں اس مسئلے کی اصل وجہ کیا ہے) ۔ گولڑہ شریف کے پیر نصیر الدین نصیر علیہ الرحمہ کا بھی یہی موقف تھا ۔ ایک بار انہوں نے اس کتاب کا حوالہ دیا تو میں نے انہیں والد صاحب کا موقف اور یہ بات بتائی ۔ اس کا بھی انہوں نے ایک پروگرام میں ذکر کیا ۔سیدہ کی شادی غیر سید گھرانوں میں کرنے کی حمایت کی وجہ سے ان کی بھی شدید مخالفت کی گئی لیکن وہ جہالت کے دربار میں کھڑے ٹچوں کو دیکھے بغیر اپنے موقف پر قائم رہے ۔
اس ملک میں ہر روز کچھ ایسا ہوتا ہے کہ سانس حلق میں آکر پھنس جاتی ہے ۔ دماغ ساکت ہوجاتا ہے اور جان جسم سے جُدا ہو جاتی ہے ۔ بڑی مشکل سے خود کو بے حسی اور بے غیرتی کی چادر پہنا کر چند لقمے لینے کے لیے آمادہ کرتا ہوں ، ذہن کو بڑی مشکل سے ادھر ادھر کر کے سزائے حیات کا کڑوا گھونٹ پیتا ہو ں۔ میں نے اپنی پوری زندگی میں بے گناہ لوگوں کو قتل ہوتے دیکھا ۔ لکھتا ہوں تو واقعات کی ٹائم لائن دماغ میں کھل جاتی ہے ۔ ایبٹ آباد کی وہ لڑکی یاد آئی ، جسے اپنی دوست کو محبت میں سپورٹ فراہم کرنے پر حویلیاں میں گاڑی میں باندھ کر زندہ جلا دیا تھا ۔ اس کی چیخیں پورا علاقہ سنتا رہا لیکن سارے بے غیرت خاموش رہے ۔
آج تیسرا دن ہے ، دل اداس ہے ۔ جب سے مانسہرہ کے علاقے جابہ میں ایک معصوم بہن کے قتل کی خبر سنی ہے ۔ کچھ دوستوں نے پوچھا تو اسی وقت عرض کیا تھا کہ " مانسہرہ میں سید زادی کوپسند کی شادی پر 16ماہ کی بیٹی سمیت قرآن پڑھتے ہوئے جمعے کے روز قتل کرنے والے آل رسول نہیں،آل ابوجہل ہیں۔"
عمر اور رابعہ اسکول میں اکٹھے پڑھتے تھے . دونوں ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے . لڑکے نے کئی بار رابعہ کے گھر رشتہ بھیجا ، رابعہ بھی اپنے خاندان کو بتاتی رہی ، لیکن یہ "خاندانی " درندے لڑکی کی مرضی کے بجائے اپنے من پسند بندے کے آگے لڑکی کو ڈال اس کا ریپ کروانا چاہتا تھا ۔ لڑکی کو جب اپنا گھر ہی اپنے لیے ہی غیر محفوظ لگا تو اس نے اس جبری شادی "ریپ میرج " کے بجائے اپنی عزت بچانے کے لیے قانون کا سہارا لیا اور عدالت میں جا کر باقاعدہ شرعی اور قانونی طریقے سے نکاح کیا ۔نکاح کے بعد عمر اور رابعہ "خاندانی "درندوں سے جان بچا کر کراچی چلے گئے . ڈیڑھ برس پہلے لڑکا حصول روزگار کے لیے سعودیہ چلا گیا . لڑکے کی ماں یہ سوچ کر کہ بے غیرت سے بے غیرت مرد بھی عورت اور بچی پر ہاتھ نہیں اٹھائے گا ، اپنی پوتی اور بہو کو لیکر مانسہرہ آگئی لیکن جمعے کے روز اسے معلوم ہوا کہ ان کی رگوں میں رسول اللہ ﷺ کا نہیں ، بو جہل کا خون دوڑ رہا ہے .
یہ مکے میں ہوتے تو ان کا دامن خون رسالت مآب ﷺ سے رنگا ہوا ہوتا۔یہ بدترین توہین رسالت ﷺ کے مرتکب ہوئے ہیں ۔ان کے ساتھ جرگے کرنا حرام ہے ، انہیں فی الفور تختہ دار پر لٹکانا چاہیے اور ایسے فسادیوں کے جنازے بھی نہ پڑھے جائیں ۔ انہوں نے اللہ اور رسول ﷺ سے جنگ کی ہے ۔
ہماری اس مظلوم بہن اور بیٹی کو قبر سے نکال کر دوبارہ اس کا عزت و احترام سے جنازہ پڑھا جائے ۔ محبت کی اس مقدس داستان کو ہیر رانجھا کی طرح یاد رکھا جائے ۔ ان کا مزار بنا کر ہر سال عرس منایا جائے۔ محبت کرنے والے اس شہیدہ راہ حق کے مزار پر دیے جلائیں ۔ ٹی وی چینلز اس جہالت اور بربریت کے خلاف پروگرام کریں ۔ اگر کوئی لکھنے والا آج بھی خاموش ہے تو اسے اپنا قلم توڑ کر “شلواروں کے نیفوں میں ناڑے “ ڈالنے کے لیے وقف کر دینا چائیے ۔
رسول اللہ کے چچا سے لیکر ہیر کے چچا تک اور ہیر کے چچا سے لیکر رابعہ شہید کے چچا تک ، ان بعض چاچوں کی حرکتیں پوری تاریخ میں گھٹیا ہی رہی ہیں ، اسی لیے تو محاورہ بنا کہ زیادہ چاچا نہ بن ۔ویسے آپ دیکھیے گا ، چچا کی آگ کی وجہ سید غیر سید نہیں ، بلکہ کچھ "اور "ہی ہوگی ۔ اس واقعے پر اگر کوئی شخص یا مذہبی سیاسی رہنما خاموش ہے ، یا اس قتل کا حامی ہے تو وہ پکا تعلیمات رسالت مآب ﷺکا گستاخ ہے ۔
جمعے کے روز جابہ کی اس بستی میں سیدہ رابعہ کے سامنے قرآن کھلا ہوا تھا ۔ "خاندانی " درندے اندر داخل ہوئے ، انہوں نے قرآن کی توہین کی ، رسول اللہ کے فرمان کی توہین کی ۔ جمعہ سید الایام کی توہین کی ، چیختی ہوئی ماں بیٹی کو لہولہان کیا ۔ اگر یہ اصلی سید زادے ہوتے تو جمعے کے روز نماز کے وقت مسجد میں ہوتے ، یہ کچھ اور تھے . یہ جمعے کے روز لوگوں کی عزتوں اور حرمتوں پر حملہ آور تھے . یزید کا تو نام بدنام ہے . یہ قاتل تو قرآن پڑھتی بیٹی کو قتل کر کے بے آبرو کرتے ہیں اور پھر جتھہ بنا کر لاشیں چھین لیتے ہیں ، انہیں بے گور و کفن پھینک دیتے ہیں .
ماں بیٹی کی آخری سانس نکلی تو ظالموں کی بستی میں قرآن کے اندر ماتم برپا ہوا، بستی کے ہر خاموش حامی پر لعنتوں کی صدا بُلند ہوئی ، سسکیوں میں ٹھنڈے ہوتے ہوئے جسموں سے آواز آئی ،
وَ اِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ(7)وَ اِذَا الْمَوْءٗدَةُ سُىٕلَتْ(8)بِاَیِّ ذَنْۢبٍ قُتِلَتْ
اور جب جانوں کوجوڑا جائے گا ۔اور جب زندہ دفن کی گئی لڑکی سے پوچھا جائے گا۔کس خطا کی وجہ سے اسے قتل کیا گیا؟
سبوخ سید
واپس کریں