دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سیلاب زدگان کو سب سے زیادہ کن چیزوں کی ضرورت ہے؟
No image پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ہونے والی تباہی کی حساسیت کا اندازہ ہونے کے بعد ہر فرد انفرادی یا اجتماعی سطح پر امداد اکٹھی کرنے اور اسے ضرورت مندوں تک بھیجنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔لیکن متاثرین کو امدادی سامان بھیجتے وقت اس چیز کا خیال ضروری ہے کہ انہیں دراصل فوری طور پر کس چیز کی ضرورت ہے اور کیا سامان چند دن بعد چاہیے ہوگا۔حکومت نے میڈیا کو ہدایات جاری کی ہیں کہ عوام کو حکومت کی طرف سے شناخت شدہ ضروری اشیا نظم و ضبط کے ساتھ حکومت کے قائم کردہ یا توثیق شدہ چینلز کے ذریعے عطیہ کرنے کی ترغیب دی جائے۔ان کی طرف سے جاری شدہ بیان کے مطابق ریڈی میڈ فوڈ پیکٹ، تازہ کھانا، دال، نمک، تیل سمیت روزمرہ استعمال کی اشیا بشمول ماچس کے ڈبے، موم بتی کے پیکٹ، مٹی کا تیل، سولر لیمپ، پولی تھین کی چادریں، فرش پر بچھانے کی دریاں، ترپال، مچھر دانیاں اور کمبل اس لسٹ میں شامل کر لیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق سیلاب زدہ علاقوں میں حکومت کی جانب سے ابتدائی طور پر فوری ضروریات کی نشاندہی کے لیے تیار کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ متاثرہ افراد کو فوری ریلیف فراہم کرنے کے لیے کم از کم 72 ارب 36 کروڑ روپے درکار ہیں۔ابتدائی نیڈز ایسسمنٹ رپورٹ کے مطابق خوراک اور فوری نقد امداد کی فراہمی کے لیے حکومت کو سات ارب 33 کروڑ روپے، نان فوڈ آئٹمز (این ایف آئی) کے لیے آٹھ ارب سات کروڑ 13 لاکھ روپے کی ضرورت ہے جب کہ طبی امداد سے متعلقہ اخراجات کے لیے ایک ارب چھ کروڑ 27 روپے درکار ہیں۔
حکومت کو بارشوں سے آنے والے سیلاب کے نتیجے میں مویشیوں کے نقصان کی تلافی کے لیے بھی نو ارب 24 لاکھ روپے درکار ہیں جب کہ ابتدائی تخمینے کے مطابق امدادی سرگرمیوں کے لیے درکار مشینری اور متعلقہ آلات کی خریداری پر چار ارب چھ کروڑ 46 لاکھ روپے لاگت آئے گی۔
دوسری جانب، سیلاب سے تباہ ہونے والے کم از کم 82 ہزار مکانات کی تعمیر نو کے لیے فی مکان پانچ لاکھ روپے کے حساب سے بھی 41 ارب روپے کی لاگت آئے گی۔

سوشل میڈیا پر امدادی کارروائیوں میں ضروری اہم امور کی نشاندہی۔
سوشل میڈیا پر کچھ امدادی رضاکاروں کا کہنا ہے کہ شہریوں کی طرف سے بعض چیزیں ایسی بھی پہنچائی جا رہی ہیں جن کی ضرورت نہیں ہے یا جو فوری ترجیحات میں شامل نہیں ہیں۔ جیسے کہ پرانے کپڑے یا جوتے، کمبل، رضائیاں، پکا ہوا کھانا یا بغیر ابلا دودھ۔ایک رضا کار کے مطابق علاقے سے دوسرے تک پکا ہوا کھانا لے جاتے ہوئے ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ اگر بارش اور سیلاب کی وجہ سے کھانے کی ترسیل میں 24 گھنٹے یا اس سے زیادہ تاخیر ہوتی ہے تو پکا ہوا کھانا خراب ہو جاتا ہے جس کا استعمال کئی بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے اور یہ مدد ایک قدرتی آفت کے بعد دوسری آفت پیدا کر سکتا ہے۔ان کی تجویز ہے کہ کھانا متاثرہ علاقے کے قریب ترین مقام پر پکایا جائے تاکہ مناسب وقت میں متاثرین تک پہنچایا جاسکے۔

امدادی سرگرمیوں میں مصروف رضاکاروں کی ترجیح
امدادی سرگرمیوں میں مشغول رضاکاروں کو فی الوقت کس چیز کی ضرورت ہے، یہ جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے ڈاکٹر زری اشرف سے بات کی جو تونسہ اور ملحقہ علاقوں میں فری میڈیکل کیمپس سمیت متاثرہ شہریوں کے لیے امداد کا بندوبست بھی کر رہی ہیں۔متاثرہ علاقوں تک رضاکارانہ امداد پہنچانے والی ایک رضا کار کہنا تھا: ’میں دو مرتبہ امدادی سرگرمیوں کی غرض سے تونسہ جا چکی ہوں۔ اس وقت جہاں پانی پہنچ چکا ہے وہاں کھڑے پانی کی وجہ سے بہت زیادہ مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور جلد کی بیماریاں اور ڈائریا بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔
’بجلی کٹ چکی ہے اور زمینی نلکے بھی ظاہری بات ہے کام نہیں کر رہے تو یہاں صاف پینے کے پانی کا مسئلہ سب سے زیادہ ہے۔ پوری پوری بستیاں تباہ ہو چکی ہیں۔ لوگوں میں بیماریاں بہت تیزی سے پھیل رہی ہیں، ہم لوگ میڈیکل کیمپس کے ساتھ کپڑے، جوتے، راشن ہر ممکن امداد ان لوگوں تک پہنچا رہے ہیں اور ہمارا ارادہ ہے کہ اگلے ہفتے تک ہم اپنی امداد کا دائرہ راجن پور تک وسیع کر لیں گے۔‘
’سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس وقت انسانوں پر تو پھر بھی کچھ توجہ دی جا رہی ہے لیکن جانوروں کا بہت برا حال ہے۔ ان تک خشک چارہ اور طبی امداد پہنچانا بہت مشکل ہو چکا ہے۔‘

سیلاب زدگان کو جن اشیا کی فوری ضرورت ہے وہ درج ذیل ہیں۔
خشک ایندھن ( لکڑی، مٹی کا تیل وغیرہ، کیونکہ چولہے تک جلنے کی پوزیشن میں نہیں)
پینے کا صاف پانی
خشک خوراک (چونکہ پکا ہوا کھانا صرف ایک وقت کام آئے گا جب کہ خشک خوراک دو تین وقت کام دے سکتی ہے)
چادریں (کمبل یا رضائیوں کی جگہ صرف صاف چادریں)
سلے ہوئے کپڑے جو فوری پہنے جا سکیں (کپڑے سینے کی سہولت کہیں میسر نہیں ہے)
پلاسٹک کے جوتے (عام جوتے وہاں قابل استعمال نہیں ہیں، جگہ جگہ کھڑے پانی میں عام جوتے کی سلائی کھل جاتی ہے)
خشک دودھ (چھوٹے بچوں کے لیے)، دودھ کے ڈبے
جانوروں کے لیے خشک چارہ
خیمے
امدادی سامان کی اس فہرست میں ضرورت کی مزید چیزیں شامل ہو سکنے کے امکان سے میڈیا نے ایک اور رضا کار سے بات کی جو ’دریافت‘ نامی ادارے کے زیرسایہ اپنی امدادی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ان کا
یہ کہنا تھا کہ ٹینٹ خیمے اس وقت مارکیٹ میں بالکل دستیاب نہیں ہیں۔ صہیب کی رضاکار ٹیمیں اس وقت راجن پور اور تونسہ دونوں علاقوں میں موجود ہیں اور اولین مسئلہ انہیں یہی درپیش ہے۔
کھانے کی چیزوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے متاثرین کی تین طرح سے درجہ بندی کی ہے، جس کے تحت ہم انہیں کھانا پہنچاتے ہیں۔‘

’وہ جو اپنے گھر میں محصور ہیں، پکانے کا انتظام ہے لیکن ان کے پاس راشن ہے، نہ ایندھن موجود ہے۔ انہیں ہم لوگ چاول، آٹا، دالیں وغیرہ پہنچا رہے ہیں۔‘
’وہ متاثرین جن کے پاس نہ فی الوقت کوئی عارضی پناہ موجود ہے لیکن کھانا بنانے کا سامان کچھ بھی نہیں۔ انہیں ہم چنے اور کھجوریں وغیرہ جیسا خشک راشن پہنچا رہے ہیں۔‘
’وہ لوگ جو بالکل سڑک کنارے بیٹھے ہیں، جن کے پاس پناہ گاہ یا کوئی چھت بھی نہیں۔ انہیں ہم پکا پکایا کھانا پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
امدادی سامان کے حوالے سے صہیب مغیرہ صدیقی کا کہنا تھا کہ ’مدد کرنے والوں نے تو ایک علاقے تک پہنچنے کے لیے اپنی جیب سے ہمیں ہیلی کاپٹر کا بندوبست بھی کر کے دیا لیکن متاثرین بہت زیادہ ہیں اور تباہی کے آثار کم ہونے میں نہیں آ رہے۔ جتنا ممکن ہے ہم لوگ دن رات اسی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ انسانوں تک امداد پہنچائی جا سکے۔‘
بشکریہ:انڈی پنڈنٹ اردو
واپس کریں