دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
اشٹبلشمنٹ،پالیسیاں اور نتائج
No image احتشام الحق شامی۔ یہ کھلی حقیقت ہے کہ اشٹبلشمنٹ نے خارجہ امور بلخصوص کشمیر اور افغان پالیسی کو ہمیشہ سے اپنی گرفت میں لیئے رکھا ہے۔ لولی لنگڑی جمہوری حکومتوں کو اس قدر بھی اجازت نہیں دی گئی کہ وہ افغان اور کشمیر پالیسی کے حوالے سے پارلیمنٹ میں آذادانہ بحث و مباحثہ یا کوئی فیصلہ سازی کر سکیں اور تو اور کشمیر اور افغان پالیسی پر کسی جانب سے بھی نکتہ چینی یا تنقید کرنے کو ملکی سلامتی کے خلاف قرار دیا گیا۔
اپنے وقت میں افغان پالیسی کے سرخیلِ دوئم اور ڈیکٹیٹر جنرل پرویز مشرف رجیم کے اختتام پر پاکستانی شہری ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکہ کے حوالے کیا گیا۔ ان پر امریکی فوجیوں پر حملے کا الزام عائد کیا گیا اور انہیں 86 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ غلط ہے یا صحیح،یا اس الزام میں کس قدر سچائی ہے، اس سے قطع نظر یہ امریکہ اور امریکی غیرت کو چیلنچ کرنے کی ایک ادنی مثال تھی۔
اب زرا پنی قومی غیرت بھی ملاحضہ ہو۔ ہم نے پہلے امریکی ایماء پر اپنے طالب علموں کو روس کے خلاف استعمال کر کے بے یارت و مدد گار چھوڑا۔ کچھ عرصہ کے لیئے انہیں کابل کے اقتدار پر بھی بٹھایا لیکن جلد ہی اسلام آباد میں ان کے سفیر کے کپڑے اتار کر اسے امریکہ کے حوالے کر دیا، جس نے اپنے ساتھیوں سمیت عالمی اذیت خانے گوانتانوبے میں کئی ماہ بدترین تشدد برداشت کیا۔ ردِ عمل میں کچھ ہی عرصہ بعد انہی طالب علموں نے ہمارے فوجیوں کے سروں کو کاٹ کر کوہاٹ کی سڑکوں پر رکھا۔ نتیجے میں طالب علموں کے خلاف ملک گیر آپریشن ردِ فساد اور ضرب ِ عضب کیا گیا۔ وقت گزرا، اب ہم پھر انہی طالب علموں کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیئے ان کے ترلے کر تے رہے کہ ماضی بھول کر آگے چلیں لیکن طالب ِ علم اپنا ماضی بھولنے کو تیار نہیں۔فیض حمید کی کابل میں چائے کی پیالی کے بعد برپا ہونے والا طالبانی طوفان تو ابھی کل کی بات ہے۔جس کا نتیجہ دہشت گردی کی صورت میں پوری قوم بھگت رہی ہے۔یہ ہماری اشٹبلشمنٹ کی افغان پالیسی کا لبِ لباب تھا،اب زر اشٹبلشمنٹ کی کشمیر پالیسی بھی ملاحضہ ہو۔
کشمیر پالیسی کے سرخیلِ اول، ڈیکٹیٹر جنرل ضیاء الحق مرحوم تھے، جنہوں نے مقبوضہ کشمیر میں بھی جہاد کرنے کے نام پر بزنس ایمپائر کھڑی کی، جس کی برکت سے کئی مجاہدوں اور افسران کی اولادوں نے بیرونِ ممالک یونیورسٹیوں میں اعلی تعلیم حاصل کی، افسران کے بنگلے بنے اورسائڈ بزنس چلے۔ الحمد اللہ اس قدر منافع بخش کاروبار چلا کہ ان سابق افسران کے بنگلوں میں آج بھی قیمتی گاڑیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ کاروبار چمکانے کی غرض سے سری نگر کی آزادی کے لیئے بڑے بلند و بانگ دعوے کیئے گئے اس لیئے کشمیر ایشو کے نام سے اشٹبلشمنٹ کا بزنس نہ صرف چلتا رہا بلکہ تیزی سے پھلتا پھولتا رہا اس ضمن میں اسی اور نوے کی دھائی گولڈن پیریڈ تھا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ بیدار ہوتے عوامی شعور نے کاروبارِ جہاد کی پیدا گیری میں رکاوٹ پیدا کرنا شروع کر دی۔آج صورتِ حال ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی سودے بازی کے بعد کی کشمیر کی آزادی کے نام پر رکھے گئے چندے کے بکسے خالی پڑے ہیں کیونکہ دھوکہ بری طرح بے نقاب ہو چکا ہے۔عرض کرنے کا مقصد واضع ہے کہ براہِ راست اشٹبلشمنٹ کے زیرِ اثر رہنے والی افغان پالیسی کی طرح امریکی ایماء پر مقبوضہ کشمیر سے دستبرداری کے بعد مذکورہ پالیسی کا نتیجہ بھی آج ہم سب کے سامنے منہ کے بل گرا پڑا ہے اورسابق جنرل باجوہ اور اس کے کٹھ پتلی عمران نیازی کی جانب سے امریکہ میں بیٹھ کر کشمیر پر سرنڈر بھی کل کی بات ہے۔
لہو گرم رکھنے کا بہانہ بھی تو کوئی نہ کوئی چاہیئے۔سیاسی پالیسی بنائی گئی جس کے سرخیل سابق جنرل باجوہ،فیض حمید،ثاقب نثار اور ہمنوا تھے۔
ماضی قریب میں عوام کے ردِ عمل کے پیشِ نظر از خود سامنے آنے کے بجائے ایک کٹھ پتلی عمران نیازی کو عوام کے سروں پر بٹھا کر دیگر قومی امور کے علاوہ پہلے سے ترقی کرتی ہوئی ملکی معیشت کو بھی درست کرنے کی ٹھانی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ غیر ملکی قرضے پانچ گنا بڑھ گئے اور ترقی کی شرحِ نمو جو کہ5.8 فیصد تھی کم ہو کر منفی 0.4 تک گر گئی۔ یاد رہے اس دوران عالمی بینک اور دیگر عالمی مالیاتی ادارے بھی ملک کے دیوالیہ ہونے کے مسلسل اشارے دیتے رہے،جبکہ اس وقت کے پاکستانی اقتصادی ماہرین کے مطابق اگر تبدیلی سرکار کی موجودہ پالیسیاں برقرار رہیں تو آنے والے ماہ و سال مہنگائی اور بے روزگاری کے حوالے سے پاکستانی عوام کے لیئے قیامت خیز ثابت ہوں گے۔ اس پالیسی کا نتیجہ بھی آج ہمارے سامنے ہے۔
جب آپ اپنی اصل سرکاری ذمہ داری، چھوڑ کر ان امور کو ترجیح دینے پر لگ جائیں جو آپ کے ذمہ یا آپ کے کرنے کے نہیں یا جن امور میں آپ کی مہارت نہیں تو پھر ایسے میں انجام وہی ہوتا ہے جو کسی بندر کے ہاتھ میں ماچس کی ڈبیا پکڑادینے کے بعد ہوا کرتا ہے۔ ناکامی سے ہمکنار کشمیر، افغان اور پھر سابق جنرل باجوہ کی ناکام ڈاکٹرائن و ناکام معاشی پالیسی اس امر کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
واپس کریں