دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کشمیریوں کا یوم سیاہ۔مہاراجہ کا نام نہاد الحاق اور بھارتی تسلط ۔راجہ خان افسر خان
No image دنیا بھر جہاں کشمیری آباد ہیں 27 اکتوبر کو کشمیری ہرسال یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔اس روز کشمیر کی مقدس سر زمین پر بھارتی فوج نے اپنے نا پاک قدم رکھ کر جارحیت کا ثبوت دیا۔کشمیر پر جارحیت کر کے بھارت نے تمام قومی و بین الاقوامی معاہدات کی خلاف ورزی کی۔پچھلے 75 سال سے کشمیریوں کے خلاف بھارت کی جارحیت قائم ہے۔اس جارحیت کو ختم کرنے کے لئے کشمیری عوام مسلسل قربانیاں دے رہے ہیں۔ اس وقت کامیابی سے روا ں دواں ہے۔ کشمیر کے اندر انتفادہ شروع ہو چکا ہے۔ عوام بلا خوف و خطر بھارتی گولیوں کا مقابلہ پتھروں اور لاٹھیوں سے کر رہی ہے۔ بھارت کا یہ دعوی غلط ثابت ہو ا کہ پاکستان کشمیریوں کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔جب کہ عوام کے پاس کوئی اسلحہ موجود نہیں ہے۔ بلکہ وہ پتھروں اور لاٹھیوں سے اپنا دفاع کر رہے ہیں۔

27اکتوبر کشمیر کی تحریک آزادی میں ایک اہم مگر سیاہ ترین دن کی حیثیت رکھتا ہے۔ 1947میں اسی روز بھارت نے کشمیر پر غیر قانونی اور غیر اخلاقی طور پر اپنی فوج ہوائی جہازوں کے ذریعے اُتاری تھی جو ابھی تک کشمیر کی سرزمین پر غاصب کی حیثیت سے قابض ہے۔اسی دن سے بھارت نے کشمیریوں پر جبر و استحصال کا آغاز کیا۔ یوں تو مقبوضہ کشمیر، آزاد کشمیر اور پاکستانی عوام کے علاوہ پوری دنیا میں یہ دن بھارت کے خلاف بطور یوم سیاہ منایا جاتا ہے۔ جہان جہاں کشمیری آباد ہیں وہ سب اس دن کو بھارت کے خلاف شدید نفرت کا اظہار کرتے ہوئے یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔ پاکستانی اور دنیا کے دوسرے ممالک کے آزادی پسند لوگ بھی اس دن کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اس روز کشمیر کے تمام حصوں میں بھارت کے خلاف زبردست جلسے جلوسوں کا اہتمام کیا جاتا ہے اور اقوام متحدہ کے دفاتر میں یاداشتیں پیش کی جاتی ہے اور یہاں کے عوام کی آزادی کے حق میں قراردادیں منظور کی جاتی ہیں۔ اس دن کے منانے کا مقصد اقوام متحدہ اور دنیا کو یہ باور کرانا ہو تا ہے کہ بھارت نے کشمیر پرغیر قانونی اور غیر اخلاقی طور پر قبضہ جمایا ہوا ہے۔ اس دن کے منانے کا یہ بھی مقصد ہے کہ اقوام متحدہ کو یاد دلایا جائے کہ 5جنوری 1949کو اقوام متحدہ کے کمیشن برائے پاک و ہند نے کشمیریوں کو حق خودارادیت دلانے کا جو وعدہ کیا تھا وہ ابھی تک پورا نہیں ہوا۔ اس کا سب سے بڑا سبب بھارت کی ہٹ دھرمی اور اقوام متحدہ کے فیصلہ کی وعدہ خلافی۔ بھارتی فوج پچھلے 75برسوں سے کشمیر کے سرزمین کو کشمیریوں کے ہی خون سے سینچ رہی ہے اور ہر روز کشمیریوں کی سروں کی فصل کاٹ رہی ہے۔ 27اکتوبر یوم سیاہ کے پیچھے ایک طویل تاریخ ہے اور اس کا ایک پس منظر ہے۔

3جون 1947ء کے تقسیم ہند کے فارمولے کے مطابق ہندوستان کی چھ سو بیس ریاستوں کو خود مختاری کے اختیارات منتقل ہوگئے تھے۔ ریاستوں کے حکمرانوں کو علاقوں کی آبادی کی رائے اور جغرافیائی پوزیشن کو مد نظر رکھ کر پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کرنے کا حق دیا گیا۔ حیدر آباد، مناوا اور جونا گڑھ کی ریاستوں پر بھارت نے جارحانہ قبضہ کیا۔ ریاست جموں وکشمیرکے ڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے یہاں کے عوام کی خواہشات، ریاست کی جغرافیائی حیثیت پاکستان کے ساتھ صدیوں پرانے مذہبی، ثقافتی اور تجارتی رشتوں کے برعکس بھارت کے ساتھ عارضی الحاق کیا۔ اس سازش میں بھارت کے گورنر جنرل لارڈ مونٹ بیٹن پیش پیش تھے۔ جون 1947ء میں مونٹ بیٹن کا خفیہ دورہ سری نگر اور آنجہانی مہاتما گاندھی کا یکم اگست 1947ء کا دورہ سرینگر اس سازش کی کڑیاں ہیں۔ انہوں نے مہاراجہ ہری سنگھ کو اس کی بیوی کے ذریعہ شیشہ میں اُتارا اور الحاق کرنے پر مجبور کیا۔ ریاست میں ہر طرف ڈوگرہ فوجیوں اور مسلمان مجاہدین کے درمیان خون ریز جھڑپیں ہورہی تھیں۔ ڈوگرہ اور ہندوستان کے فوجوں کو کشمیری مجاہدین کے ہاتھوں شکست کھانا پڑی۔

مجاہدین نے آزاد کشمیر، گلگت، بلتستان کا رقبہ آزاد کرالیا۔24اکتوبر 1947ء کو آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر قائم کردی گئی۔ جس سے بھارت کو پہلا دھچکا لگا۔بھارت کو کشمیر میں ہر محاذ پر شکست سے دو چار ہونا پڑا۔ ہر محاذ پر مجاہدین کشمیر کی پیش قدمی جاری تھی کہ بھارت اقوام متحدہ میں پاکستان کے خلاف شکایت لیکر گیا۔ پاکستان پر جارحیت کا الزام لگایا۔ مہاراجہ ہری سنگھ جموں بھاگ چکا تھا۔ دوسری طرف وہ بھارتی سازش اور دباؤ میں آچکا تھا اور اپنی آئینی حیثیت کھوچکا تھا لیکن اس کے باوجود مہاراجہ نے الحاق کی دستاویزات پر دستخط کرنے سے پہلے چند شرائط رکھیں جو بھارت نے مان لی تھیں۔
1۔پہلی شرط تھی کہ الحاق ریاست کی وحدت کو برقرار رکھے گا۔
2۔ ریاست جموں و کشمیر کے اندرونی قوانین برقرار رہیں گے۔
3۔۔ ہندوستان کے قوانین کا ریاست پر براہ راست اطلاق نہیں ہوگا۔
بھارت نے مہاراجہ کی یہ تمام شرائط مان لی تھیں اور 26اکتوبر 47ء کی نصف شب کو مہاراجہ نے بھارت کے ساتھ الحاق کی دستاویزات پر دستخط کرکے کشمیری عوام کے حق پر شب خون مارا۔ الحاق کے بعد بھارت نے کشمیر پر فوج کشی کرکے الحاق کی کسی شرط پر عمل نہیں کیا۔ بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف اقوام متحدہ میں دائر کیا گیا مقدمہ سیکورٹی کونسل میں پیش کیا گیا۔ بھارت کا کہنا تھا کہ مہاراجہ نے باقاعدہ بھارت سے الحاق کرنے کی درخواست کی تھی اور بعد میں الحاق کیا، لیکن بھارت یہ بات نظر انداز کرگیا کہ جوناگڑھ، حیدر آباد اور مناوا کے حکمرانوں نے پاکستان سے الحاق کی درخواستیں کی تھیں اور مہاراجہ ہری سنگھ نے بھی پاکستان کے ساتھ سیٹنڈ سٹل یعنی جوں کا توں معاہدہ کیا تھا۔ بھارت نے حیدر آباد، مناو اور جونا گڑھ پر اسی جواز کے ساتھ قبضہ کیا کہ وہاں کی اکثر آبادی غیر مسلم تھی۔ کشمیر میں فوج کشی کا دفاع کرتے ہوئے بھارت نے یہ جواز پیش کیا کہ ریاست کے حکمران مہاراجہ نے اس کے ساتھ الحاق کیا تھا، حالانکہ یہ الحاق بالکل غیر آئینی، غیرقانونی اور غیر اخلاقی تھا، کیونکہ ریاست کے 81فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی اور بھارت نے فوجی طاقت کے بل بوتے پر ریاست کو اپنے ساتھ رکھا بھارت سلامتی کونسل میں اپنا کیس بری طرح ہار گیا اور اس کی کمیشن نے 5جنوری 1949ء کو ایک قرارداد منظور کی۔ اس قرار داد نے کشمیری عوام کو حق دیا کہ رائے شماری کے ذریعے وہ اپنا مستقبل پاکستان یا بھارت کے ساتھ وابستہ کرسکتے ہیں۔ اس قرارداد کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اقوام متحدہ نے چسٹر نمزکو بحیثیت ایڈمنسٹریٹر برائے رائے شماری نامزد بھی کیا۔ لیکن بھارت کی مکاری اور عدم تعاون کی وجہ سے ریاست میں رائے شماری نہیں ہوسکی، بلکہ بھارتی وزیراعظم آنجہانی راجیو گاندھی نے اسلام آباد میں ایک صحافی کے سوال کا جواب دتیے ہوئے کہا کہ ”کشمیر میں کئی الیکشن ہوئے ہیں“ مسٹر گاندھی ان انتخابات کو ہی رائے شماری سمجھتا تھا۔ یہ انتخابات کتنے آزاد اور غیر جانبدار تھے ان پر ان کالموں میں بحث کرنا مناسب نہیں ہوگا۔

جون 1949کی قرارداد پر دونوں پاکستان اور بھارت کے دستخط ثبت ہیں اور اس قرارداد کو دونوں نے تسلیم کیا ہے۔ پاکستان ابھی تک ان قراردادوں کو تسلیم کرتا آیا جبکہ بھارت ساٹھ کی دہائی میں انکاری ہوا۔ حتیٰ کہ بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے مسئلہ کشمیر حل کرنے کے سلسلے میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے نام 27اکتوبر 1947ء کو ایک تار کے ذریعے واضع کیا کہ ”میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ کشمیر کی ہنگامی صورتحال میں مدد کرنے سے یہ غرض ہرگز نہیں کہ بھارت سے الحاق کرنے کیلئے اس پر اثر ڈالا جائے۔ ہمارا(بھارت کا)بار باردہرایا ہوا نقطہ نظر یہ ہے کہ کسی ریاست کے الحاق کے مسئلہ پر تنازعہ کی صورت میں وہاں کے عوام کی رائے معلوم کی جائے اور ہم اس موقف پر قائم ہیں“۔

31اکتوبر 1947ء کو پنڈت نہرو نے ایک اور تار میں پاکستان کے وزیراعظم لیاقت علی خان کو اس طرح یقین دہانی کرائی”جوں ہی امن و امان بحال ہوتا ہے کشمیری عوام الحاق کا فیصلہ کریں گے۔ یہ ان پر موقوف ہے کہ وہ مملکتوں میں سے کسی کے ساتھ الحاق کرتے ہیں“۔ پنڈت نہرو نے درجنوں موقعوں پر کشمیر میں استصورب رائے کی حمایت کی۔

”میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہماری پالیسی یہی ہے کہ جہاں کہیں کسی ریاست کے ساتھ الحاق کے بارے میں تنازعہ ہو، الحاق کا فیصلہ حتمی طور پر عوام کو کرنا ہوگا۔ اس پالیسی کے مطابق ہم نے کشمیر کے الحاق کی دستاویز میں یہ شرط رکھی ہے“ بحوالہ 2نومبر 1947ء آل انڈیا ریڈیو سے پنڈت نہرو کا خطاب) اگلے روز یعنی 3نومبر 1947ء کو بھارتی وزیراعظم نے اپنے عہد کودہراتے ہوئے کہا ”ہم نے اعلان کررکھا ہے کہ کشمیر کی قسمت کا فیصلہ آخر کا ر کشمیری عوام کو کرنا ہے۔ یہ وعدہ ہم نے نہ صرف کشمیری عوام سے بلکہ دنیا سے کیا ہوا ہے۔ اس سے ہم نہ انحراف کرسکتے ہیں اور نہ کریں گے‘

‘ پنڈت جی ایک بار پھر 2نومبر 1947ء کو لیاقت علی خان کو یقین دہانی دلاتے ہوئے ایک خط میں تحریر کرتے ہیں کہ ”جونہی امن و امان قائم ہوگا کشمیر کو اقوام متحدہ کی زیر نگرانی استصواب رائے یا ریفرنڈم کے ذریعہ الحاق کا فیصلہ کرنا ہوگا“ بھارت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے کئی بار بھارتی لوک سبھا اور راجہ سبھا میں کشمیر پر پالیسی سٹیٹ منٹ دیا۔ جن کا ذکر کرنا مناسب ہوگا”ہم نے اپنے نیک ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے تجویز کیا ہے کہ جب کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کے فیصلہ کرنے کا موقع فراہم کیا جائے تو یہ اقوام متحدہ جیسے غیر جانبدار ٹریبونل کی نگرانی میں ہونا چاہئے۔ کشمیر میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ تشدد یا طاقت کے بغیر عوام کی رائے سے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے“
بھارت کا ایک بہانہ یہ بھی تھا کہ پاکستان کی رائے کواہمیت دینے سے بھارت کے اندر فرقہ وارانہ ذہن بیدار ہونے کا خطرہ ہے۔ جس سے وہاں کے مسلمانوں کے تحفظ کو خطرہ لاحق ہے۔ بھارت ہمیشہ دوہرے معیار پر کار بند رہا۔ ایک طرف سیٹو اور بغداد پیکٹ پر اعتراض کرتا رہا اور دوسری طرف سابقہ سوویت روسی کے ساتھ پچیس سالہ دفاعی معاہدہ کیا جس کی مدد سے مشرقی حصہ (بنگلہ دیش) پاکستان سے الگ کیا۔ پنڈت نہرو کی واضح یقین دہانیوں کے باوجود اگست 1954ء میں اس نے اپنے ہم نوا دوست شیخ محمد عبداللہ کو اقتدار سے معزول کرکے ریاست میں غیر قانونی اور غیر آئینی قسم کی انتظامی تبدیلیاں کیں اور عارضی الحاق کی دستاویز میں قبول کئے گئے۔ شرئط پر عمل نہیں کیا۔ بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھارتی سپریم کوڑت کا دائرہ ریاست تک بڑھایا۔ الیکشن کمشن اور بھارتی سول سروس کے قوانین کو ریاست تک بڑھایا۔ کشمیر کی سیاسی تحریکوں کو غیر قانونی طور کالعدم قرار دے کر ان کے ورکروں کو ”دہشت گرد“ کہہ کر جیلوں میں بند کردیا گیا۔ اور انڈین کانگریس پارٹی کو اپنے گماشتوں کے ذریعے ریاستی عوام پر مسلط کردیا گیا۔

سیاہ چین پر حملہ کرکے معاہدات کی خلاف ورزی کی۔ مقامی لوگوں کیلئے سخت مشکلات پیدا کیں۔ کشمیری عوام کی تحریک آزادی کیلئے جدوجہد کو دبانے کیلئے کالے قوانین بنائے۔ بھارت نے الحاق کی شرائط، تاشقند معاہدہ، شملہ معاہدہ اور پاک بھارت مذاکرات میں طے شدہ تمام اصولوں کی دھجیاں اڑائیں۔ خاص کر موجودہ مذاکراتی عمل کے کسی بھی فیصلے کو دل سے قبول نہیں کررہا ہے۔
بھارتی جارحیت زیادہ دیر تک کشمیر کے اندر قائم نہیں رہے گی۔اب بھارت کے دانشور اور صحافی اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ بھارت حکومت نے آج تک اپنے میڈیا اور دانشوروں کو "کشمیر میں امن "ہے کہہ کر غلط بیانی کی۔اب بھارتی دانشور حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ کشمیریوں کو آزاد کیا جائے۔کچھ دانشور کہتے ہیں کہ ہندوستان کو کشمیر سے آزاد کیا جائے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ کشمیر کو اپنے ساتھ رکھ کر بھارت تباہی کی طرف جا رہا ہے اور اس تباہی کا انجام بھارت کی غلامی ہو گی۔
راجہ خان افسر خان۔ڈائریکٹرجموں وکشمیرلبریشن کمیشن
واپس کریں