دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پی ٹی آئی کے موقف میں مایوسی کی لہر ۔ڈھلتی داستان
No image احتشام الحق شامی :بنی گالہ سے لندن تک ہر طرف سیاسی گہما گہمی کے ساتھ سیاست ایک بار پھر گرم ہو رہی ہے۔ لگتا ہے کہ حالیہ واقعات نے سابق وزیراعظم عمران خان کو اندر سے بری طرح ہلا کر رکھ دیا ہے۔ 'مائنس ون' آپشن کی بات، توہین عدالت کا دھچکا، آئی ایس پی آر کی سرزنش، اور اب بڑھتے ہوئے خیال کہ انتخابات ابھی بہت دور ہیں۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین نے اپنی ہی پارٹی کے ارکان کو ’بائی پاس‘ کرنے اور اسٹیبلشمنٹ سے رابطے میں آنے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اس غصے سے پی ٹی آئی کی صفوں کے اندر پارٹی پالیسی کے بارے میں اسٹیبلشمنٹ کے مقابلے میں ابہام نمایاں ہونے لگا ہے۔ لیکن جو بات عمران خان دیکھنے میں ناکام رہے وہ اس معاملے کے حوالے سے ان کا اپنا متضاد موقف ہے۔ وہ جس دن سے اقتدار سے بے دخل ہوئے اس دن سے ’غیر جانبدار‘ یا نیوٹرل کے حوالے سے گرما گرم کھیل رہے ہیں۔

اب وہ وقت ہے کہ پی ٹی آئی کے موقف میں مایوسی کی لہر دوڑ سکتی ہے۔ ایک طرف تو ایسا لگتا ہے کہ عمران ملک کے اقتدار پر قابض حکمرانوں کے لیے اپنی ناگزیریت ثابت کرنا چاہتے ہیں، دوسری طرف وہ ان کے ساتھ مفاہمت بھی کرنا چاہتے ہیں - شاید یہ سمجھتے ہوئے کہ ان کا سیاسی کیرئیر اس طرح کی سرپرستی کے بغیر کہیں نہیں جائے گا۔ جیسا کہ اعلیٰ سطحی ملاقاتوں کی بات چیت کا دور دورہ ہے، پی ٹی آئی نے اب ایک بار پھر اسلام آباد تک ’لانگ مارچ‘ کی دھمکی دی ہے جبکہ اس سال مئی میں ہونے والی اس سے پہلے کی ریلی بڑی حد تک ناکامی سے ہمکنار یا فلیٹ کر گئی تھی، جس کے نتیجے میں عمران خان نے بظاہر اپنی پارٹی کے رہنماؤں کو بڑی تعداد میں لوگوں کو باہر نکالنے میں ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔

ڈھلتی ہوئی داستان کے ساتھ اگرچہ اب بھی عوام کی حمایت پر پارٹی کچھ مضبوط ہے لیکن سابق وزیر اعظم اور ان کی پارٹی مختلف سیاسی آپشنز پر بات چیت کر سکتی ہے۔ وہ اس کے ساتھ چل سکتے ہیں جا عمران کا جھکاؤ عمران خان کی جانب نظر آتا ہے،جیسے کہ ق لیگ۔ عمران خان اسٹیبلشمنٹ تک خواہ مخواہ تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کا اب وقت گزر چکا ہے ۔ وہ سیاسی طبقے تک پہنچنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں اور ملک میں سیاست اور جمہوریت کے آگے بڑھنے کے راستے پر سنجیدہ بات چیت کر سکتے ہیں لیکن دوسری جانب پارٹی کے اندر معاملات الجھے اور کھڑے نظر آ رہے ہیں، جس باعث پی ٹی آئی کا ”اپنا صفحہ” درمیان سے پھٹ سکتا ہے کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے پاس مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ بات چیت کا کوئی شاندار ریکارڈ نہیں ہے۔
واپس کریں