دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کیا سندھ طاس معاہدہ خطرے میں ہے
عصمت اللہ نیازی
عصمت اللہ نیازی
پانی قدرت کی ایک ایسی نعمت ہے جو کہ انسان کی بقاء کی علامت ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ تیسری عالمی جنگ بھی شاید پانی کی وجہ سے ہی لڑی جائے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان اور ہندوستان میں پانی نہ صرف زراعت اور معیشت کی شہ رگ ہے بلکہ قومی سلامتی سے جڑا ایک حساس مسئلہ بھی ہے کیونکہ پاکستان اور بھارت جیسے روایتی حریف ممالک کے درمیان دریاؤں کی تقسیم کا معاملہ کبھی بھی صرف پانی تک محدود نہیں رہا بلکہ یہ دونوں ریاستوں کے سیاسی، اقتصادی اور سٹریٹیجک مفادات کا محور بھی رہا ہے۔ انہی حالات کے پیش نظر 1960 میں پاکستان کے صدر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان اور بھارت کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کے درمیان کراچی میں سندھ طاس کے نام سے ایک معاہدہ طے پایا۔ اِس معاہدہ کی تشکیل اور مذاکرات میں عالمی بینک نے کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ معاہدہ ایک دہائی سے زائد طویل مذاکرات کے بعد ممکن ہو سکا اور عالمی بنک نے دونوں فریقین کے مابین گارنٹر کا کردار ادا کیا جبکہ امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور دیگر مغربی ممالک نے مالی و سیاسی ضمانت دی۔ بہت سے لوگوں کو شاید اس معاہدہ کے بارے میں تفصیلات معلوم نہ ہوں لہذا سب سے پہلے ہم اس معاہدہ کی شرائط سے آگاہی لے لیتے ہیں اس معاہدہ کے مطابق تین مشرقی دریا ستلج، بیاس اور راوی، بھارت کو دے دیے گئے جبکہ تین مغربی دریا سندھ، جہلم اور چناب پاکستان کے حصہ میں آ گئے۔ معاہدہ کے مطابق بھارت کو مغربی دریاؤں کا محدود استعمال یعنی آبپاشی، گھریلو ضروریات، پن بجلی بغیر ذخیرہ کئے اجازت دے دی گئی۔ اسی طرح پاکستان میں ڈیمز اور نہریں بنانے کیلئے عالمی برادری نے مالی امداد بھی فراہم کی۔ اور مزید برآں ایک کمیشن بھی قائم کیا گیا جس کا نام "انڈس واٹر کمیشن" ہے تاکہ دونوں ملکوں میں مستقل رابطہ اور تنازعات کا بروقت حل ممکن ہو سکے۔ اب آتے ہیں موجودہ صورتحال کی طرف جس کے مطابق سندھ طاس معاہدہ کو معطل کرنے یا توڑنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق معاہدوں کی پابندی بہت ضروری ہے اور کوئی ملک یکطرفہ طور پر اس سے فرار حاصل نہیں کر سکتا جب تک کہ بنیادی حالات میں ایسی تبدیلی نہ آ جائے جو معاہدہ کی بنیاد کو ہی بدل دے لیکن ایسی صورت میں بھی یکطرفہ طور پر معاہدہ توڑنے کی بجائے معاملہ بین الاقوامی عدالتوں اور سفارتی محاذوں پر لے جایا جاتا ہے جہاں نہ صرف فوری یکطرفہ کارروائی کرنا مشکل ترین ہوتا ہے بلکہ بھاری عالمی دباؤ کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے لیکن بھارت یہاں معاہدہ توڑنے کی یکطرفہ دھمکیوں دے رہا ہے جن پر عملدرآمد ممکن نہیں بلکہ یہ ایک طرف تو صرف سیاسی گیدر بھبھکیاں لگتی ہیں اور دوسری طرف معاہدہ پر نظرثانی کرنے کی ناکام کوشش بھی ہو سکتی ہے کیونکہ ماضی میں بھی اڑی حملہ کی طرح کے واقعات کے نتیجہ میں صورتحال کے پیش نظر "خون اور پانی اکٹھے نہیں بہہ سکتے" جیسا موقف اختیار کئے رکھا جبکہ بھارت نے معاہدہ کے خلاف مغربی دریاؤں پر کشن گنگا اور راتلے ہیڈوپاور منصوبے تعمیر کر لئے ہیں جن کے خلاف پاکستان نے بارہا احتجاج ریکارڈ کرایا ہے لیکن معاہدہ اب تک برقرار ہے۔ چونکہ سندھ طاس معاہدہ ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے اسے عالمی بنک کی گارنٹی حاصل ہے لہٰذا اسے یکطرفہ طور پر ختم کرنا ناممکن ہے اور اگر کسی فریق کی ایسی حرکت کی گئی تو دوسرا فریق عالمی بنک یا عالمی عدالت انصاف کے پاس جا سکتا ہے۔ ہاں دونوں فریقین ایسی ہی دھمکیوں سے اپنے اپنے ممالک میں اپنی عوام کو حسب روایت بے وقوف بنا کر سیاسی مقاصد حاصل کر سکتے ہیں جیسا کہ وہ کسی حد تک کامیاب بھی رہے ہیں۔
واپس کریں