دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سانحہ کالاباغ میں مختلف شخصیات کا مثبت کردار
عصمت اللہ نیازی
عصمت اللہ نیازی
میانوالی کے انتہائی خوبصورت علاقہ کالاباغ میں گذشتہ دنوں کچھ لوگوں کی نااہلی کی وجہ سے ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا جس میں ایک ہی علاقہ میں گذشتہ کئی دہائیوں سے آپس میں بھائیوں کی طرح رہنے والے دو مکتبہ فکر کے لوگ لڑ پڑے۔ یہ لوگ کیوں لڑے اور کیا یہ سانحہ رونما ہونے سے پہلے روکا جا سکتا تھا؟ یہ ایک الگ کہانی ہے
دل کے لُٹنے کا سبب پوچھو نہ سب کے سامنے
نام آئے گا تمہارا یہ کہانی پھر سہی
ہم آج یہاں بات کریں گے کچھ ایسے کرداروں کی جنھوں نے اس واقعہ کے دوران ایک مثبت مثال قائم کی۔ جب بھی دو فرقوں کے درمیان کسی بات پر غلط فہمی پیدا ہوتی ہے تو اس کا ردعمل اتنا شدید ہوتا ہے کہ اُس میں کوئی بھی کردار ادا کرنا انتہائی پُر خطر ہوتا ہے کیونکہ اُس وقت جلوس کے شرکاء انتہائی غصہ میں ہوتے ہیں اور پہاڑی سیلابی ریلے کی طرح آگے آنے والی ہر چیز کو بہا کر لے جاتے ہیں لیکن اس صورتحال کے باوجود کچھ افراد اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر لوگوں کی جان بجانے کیلئے اس خطرے میں کود جاتے ہیں۔ سانحہ کالاباغ کے دن بھی جن افراد نے وہاں کردار ادا کیا اُن میں سر فہرست تھانہ کالاباغ کے سب انسپکٹر عبدالصمد اور ان کے دو ساتھی کانسٹیبل قیصر اور عمیر اعجاز تھے جنھوں نے جلوس کے شروع میں ہی ہسپتال کے ساتھ ملحقہ مسجد میں موجود لوگوں اور جلوس کے شرکاء کے درمیان آ کر دونوں پارٹیوں کو روکا اور منتشر کیا اور جب جلوس کے شرکاء نے مسجد کے اندر داخل ہونے کی کوشش کی تو عبدالصمد نے مسجد کا دروازہ بند کر دیا اور اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ روازہ کے سامنے بہادری کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ اگر وہ اس طرح کی بہادری سے ایسا نہ کرتے تو جلوس کے شرکاء مسجد میں داخل ہو جاتے اور بہت زیادہ نقصان ہو سکتا تھا اس جرآت اور بہادری کے ساتھ ڈیوٹی کرنے پر ہم سب عبدالصمد، قیصر اور عمیر اعجاز کو سلام پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح جب یہ واقعہ ظہور پذیر ہوا اور اس کی اطلاع سی ای او ہیلتھ ڈاکٹر امیر احمد خان کے پاس پہنچی تو وہ پلک جھپکتے ہی فوراً میانوالی سے کالاباغ پہنچے اور ایک حکمت عملی بنا کر ریسکیو کا کام شروع کر دیا۔
محکمہ صحت کے تین ڈاکٹرز اور عملہ کے 28 اہلکار پہلے ہی جلوس کے ساتھ ڈیوٹی پر معمور تھے۔ جلوس مسجد لوہاراں والی میں پہنچا تو وہاں تک دونوں مکتبہ فکر کے سینکڑوں لوگ زخمی ہو چُکے تھے۔ یہ صورتحال دیکھ کر ڈاکٹر امیر احمد خان نے فوری طور پر ہسپتال کے عملہ کو احکامات جاری کئے کہ ایک مکتبہ فکر کے لوگ جن کے 60 سے زائد افراد زخمی ہوئے انہیں مسجد لوہاراں والی میں ہی مکمل طبعی امداد فراہم کی جائے تاکہ انہیں ہسپتال میں نہ لایا جائے کیونکہ وہاں پر دوسرے مکتبہ فکر کے سینکڑوں لوگ موجود تھے جو انتہائی غصہ کی حالت میں تھے اور اگر اہل تشیع کے زخمیوں کو ہسپتال میں لایا جاتا تو بہت بڑے نقصان کا سامنا ہو سکتا تھا۔ اسی طرح سُنی حضرات کے زخمیوں کو ہسپتال سے فوری طور پر ابتدائی طبعی امداد فراہم کر کے انہیں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میانوالی منتقل کیا جاتا رہا اور دونوں پارٹیوں کے زخمی افراد کی طبعی امداد کیلئے ایمرجنسی ادویات کا بندوبست فوری طور پر کر دیا گیا تاکہ کسی بھی زخمی فرد کو بازار سے دوائی نہ خریدنی پڑے کیونکہ میڈیکل سٹورز سمیت پورا بازار پہلے سے مکمل طور پر بند تھا۔
ڈاکٹر امیر احمد خان ہر آنے والے زخمی کے ساتھ ایمرجنسی وارڈ میں جاتے اور اُن کا مطلوبہ علاج کرا کے ریسکیو 1122 کے ذریعے فوری طور پر میانوالی ریفر کر دیتے اور یہ سلسلہ کئی گھنٹوں تک جاری رہا۔ جب تک آخری زخمی کو طبعی امداد فراہم نہیں ہو گئی ڈاکٹر امیر احمد خان وہاں پر خود موجود رہے۔ اس کے ساتھ ریسکیو 1122 کے عملہ نے گولیوں کی ٹڑٹڑاہٹ میں شہر کی تنگ گلیوں کے اندر جا کر اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر ہر زخمی کو بروقت اُٹھا کر ہسپتال منتقل کیا حالانکہ اندھا دھند فائرنگ میں گولی کسی کو نہیں دیکھتی کہ آگے والا شخص ریسکیو 1122 کا ہے، محکمہ صحت کا ہے یا پھر جلوس میں شامل کسی مکتبہ فکر کا ہے۔ کوئی بھی سرکاری ملازم اپنی ڈیوٹی کی تنخواہ وصول کرتا ہے اور لوگوں کو سروسز فراہم کرنا اُن کے فرائض میں شامل ہوتا ہے لیکن ایسی صورتحال میں جہاں کئی محکموں کے ملازمین موقع سے فرار ہو گئے ایسے میں دلیری اور جانفشانی کے ساتھ ڈیوٹی کرنے والے نوجوانوں کو سلام پیش کرنا اور انہیں خراج تحسین پیش کرنا میڈیا اور اہل علاقہ کا فرض ہے کیونکہ اہل علاقہ کی حوصلہ افزائی کی وجہ سے مستقبل میں یہ لوگ مزید دل لگی سے اپنے فرائض منصبی انجام دیں گے۔
سانحہ کالاباغ کے بعد پیدا ہونے والے حالات کو کنٹرول کرنے اور دونوں پارٹیوں کے درمیان صلح و آشتی کرانے کیلئے کردار ادا کرنے والے علامہ افتخار نقوی ، سول سوسائٹی کے نمائندہ نائب ناظم حاجی محمد جاوید اور انکی پوری ٹیم، ڈی ایس پی سرکل عیسیٰ خیل حاجی محمد اقبال سمیت تمام شخصیات کے مشکور ہیں جو اس کارخیر میں اپنی طرف سے کوشش کر رہے ہیں ۔ ہمیں قوی امید ہے کہ انشاء الله بہت جلد ان لوگوں کی پرخلوص کاوشیں رنگ لائیں گی اور کالاباغ کی رونقیں پہلے کی طرح بحال ہوں گی اور کالاباغ میں بسنے والے تمام مکتبہ فکر کے لوگ آپس میں بھائیوں کی طرح اتفاق اور محبت سے رہیں گے۔
واپس کریں