دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سماجی شعور میں تبدیلی کی بات
عصمت اللہ نیازی
عصمت اللہ نیازی
کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر سول سوسائٹی کمرمشانی کے گروپ ممبرز کی طرف سے سماجی شعور پر مثبت اور علمی بحث جاری ہے اور ہر کوئی اپنی علمی استطاعت کے مطابق اس پر قلم آزمائی کر رہا ہے، چونکہ گروپ میں کافی سارے صاحب مطالعہ لوگ موجود ہیں تو ان کی موجودگی میں کوئی بڑی تحریر لکھنا چاند کو چراغ دکھانے کے مترادف ہو گا لیکن میں یہاں اپنی کم علمی کے باوجود اس پر چند سطور لکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ سماجی شعور پر کچھ لکھنے سے قبل میں یہاں آپ کے سامنے ترقی پذیر اور ترقی یافتہ معاشرہ کے باسیوں کی کچھ مثالیں پیش کرنا چاہوں گا تاکہ شعور اور اسکی ارتقائی تبدیلیوں کو سمجھنے میں آسانی رہے۔ کہتے ہیں کہ ستر کی دہائی میں جب اسلام آباد جیسے بڑے اور ماڈرن شہر میں لال کوارٹرز نئے نئے بنے تھے تو حکومت کی طرف سے یہاں کے باسیوں کو گیس کی مفت سہولت فراہم کی گئی تھی ۔ ان کوارٹرز میں رہائش پذیر اکثر خواتین ماچس کی تیلی بچانے کیلئے چوبیس گھنٹے چولہا جلائے رکھتی تاکہ انہیں دوبارہ چولھا جلانے کی تکلیف گوارہ نہ کرنی پڑے، یہ تو عام طبقہ کے شعوری لیول کی بات تھی ۔ اب ذرا پڑھے لکھے لوگوں کے شعوری لیول کو دیکھ لیتے ہیں اور چلتے ہیں پاکستان کے ایک بہت بڑے شہر رحیم یار خان کی اینگرو آفیسرز کالونی میں جہاں فیکٹری انتظامیہ کی طرف سے افیسرز کے گھروں کو مفت بجلی فراہم کی جاتی تھی ۔ اس کالونی میں اکثر یہ بات دیکھنے کو ملتی کہ افسران کی بیگمات جب تین چار دن کیلئے بھی کہیں باہر جاتیں تو گھر کے اے سی آن کر کے جاتی تھیں تاکہ واپسی پر انہیں گھر ٹھنڈا ملے۔ اسی طرح آجکل آپ نے سوشل پر اولمپکس مقابلوں میں شرکت کیلئے جانے والے سکواڈ کو دیکھا ہو گا جس میں ہمارے ایک معروف وزیر رانا ثناء اللہ صاحب سمیت سرکاری مال پر مزے لوٹنے والے کئی افراد موجود ہیں جو اٹلی میں کشتیوں کی سیر انجوائے کرتے پھرتے ہیں۔ اب آئیں ذرا باشعور معاشرے کی ایک جھلک دیکھتے ہیں۔ جرمنی کے اس ریسٹورنٹ میں جہاں کچھ پاکستانی ڈھیر سارا کھانا منگوا کر آدھا چھوڑ کر نکلنے لگتے ہیں تو ایک خاتون گاہک روک کر پوچھتی ہیں کہ اگر کھانا نہیں تھا تو اتنا منگوایا کیوں؟ پاکستانی جواب دیتے ہیں کہ کھانے کا بل ہم نے خود ادا کیا ہے لہٰذا آپ کو کیا تکلیف ہے؟ یہ جواب سن کر وہ خاتون پولیس کو کال کرتی ہیں اور کچھ دیر بعد پولیس ریسٹورنٹ میں پہنچ جاتی ہے پولیس آفیسر ساری بات سن کر ان پاکستانیوں کو پچاس یورو جرمانہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ " بے شک پیسہ آپکا ہے لیکن وسائل معاشرہ کی امانت ہیں اور آپکو انہیں ضائع کرنے کا کوئی حق نہیں"
مندرجہ بالا واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ شعور میں مثبت تبدیلی خود بخود نہیں آ سکتی بلکہ اس کیلئے تربیت کی اشد ضرورت ہوتی ہے جس کا ہمارے معاشرہ میں فقدان ہے۔ ہمیں مجموعی طور پر معاشرہ کے شعوری لیول میں اضافہ کیلئے سب سے پہلے اپنے اردگرد کے ماحول، دوسروں کے حقوق، انصاف، برابری اور سماجی عدل کے بارے میں آگاہ ہونا پڑے گا اگر ہمیں مندرجہ بالا چیزوں کی آگاہی حاصل ہو جائے تو پھر ہم اپنے اردگرد پھیلے معاشرتی مسائل جیسے کہ غربت، بے روزگاری، نسلی امتیاز، صنفی عدم مساوات، اور دیگر سماجی ناانصافیوں کا ادراک بھی کر سکتے ہیں اور پھر شعور کے اگلے درجہ میں آپس میں تعلقات کو بہتر بنا کر ان مسائل کو حل کرنے میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں میں اپنی کم علمی کے باوجود یہ سمجھتا ہوں کہ سماجی شعور کی ترقی کیلیے تعلیم سب سے پہلا ٹُول ہے جس کی مدد سے ہم اپنی موجودہ نسل میں عموماً اور آنے والی نسل میں خصوصاً تبدیلی لا سکتے ہیں اسی طرح میڈیا بھی دوسرا بڑا ٹول ہے جو معاشرتی شعور کی بیداری میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے اور ہم مقامی سطح پر سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے مختلف مسائل پر مباحثے، پروگرام اور مثبت خبریں کی شکل میں لوگوں کو درست معلومات فراہم کر کے تبدیلی کی کوشش کر سکتے ہیں۔ اسی طرح سماجی تنظیمیں بھی اس مقصد کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہیں مختلف سماجی تنظیمیں معاشرتی شعور کی بیداری کے لئے مختلف سرگرمیاں اور پروگرام منعقد کر کے لوگوں کو ان کے مسائل کے بارے میں آگاہ کر سکتی ہیں اور اس کی بہترین مثال سول سوسائٹی کمرمشانی کا قیام ہے جس نے بہت قلیل عرصہ میں کمرمشانی اور گردونواح کے خاص کر پڑھے لکھے طبقہ کے جمود کے شکار ذہنوں میں ایک کنکر پھینک کر ارتعاش پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور آپ سب نے واضح طور پر محسوس کیا کہ آہستہ ہی سہی لیکن ذہنوں میں ارتعاش ضرور پیدا ہوا ہے اور مجھے لگتا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب لہروں کا یہ سفر ایک مدوجزر کی شکل اختیار کر جائے گا ۔ بس ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پانی میں ہلچل مچانے کیلئے کچھ نہ کچھ کرنے کا عمل جاری رکھا جائے
واپس کریں