عصمت اللہ نیازی
ڈینگی بخار ایک وائرل بیماری ہے جو ایک خاص قسم کے ایڈیس ایجپٹائی نامی مچھر کے کاٹنے سے ہوتا ہے۔ عام طور پر ہر سال اس کا سیزن مون سون کا موسم ہوتا ہے جس میں جب درجہ حرارت اور نمی میں اضافہ ہوتا ہے تو ڈینگی کے کیسز میں بھی تیزی سے اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ پاکستان میں ڈینگی کے پھیلاؤ میں ناقص صفائی، پانی کی نکاسی کے ناکافی انتظامات سمیت بہت سی وجوہات شامل ہیں۔ لہٰذا پنجاب حکومت کی طرف سے محکمہ صحت سمیت مختلف محکمہ جات کو اس کی قبل از وقت روک تھام کا فریضہ سونپا جاتا ہے لیکن بہت افسوس کی بات ہے کہ انتظامیہ کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ ان انتظامات کو صرف فوٹو گرافی تک رکھا جائے اور کاغذوں میں سب اچھا کی رپورٹ اوپر دے کر حکومت کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی روایتی پالیسی پر عمل کیا جائے تاکہ اس مد میں آنے والے فنڈز کا اپنی جیب میں استمعال کیا جائے جس کے وجہ سے آپ نے پورے ضلع میانوالی میں اپنے علاقہ میں ڈینگی مچھر مار سپرے ہوتا نہیں دیکھا ہو گا کیونکہ محکمہ صحت کے پاس تو اور بہت سی نجی مصروفیات ہیں جن کو پایہ تکمیل تک پہنچانا وہ اپنا فرض اول سمجھتے ہیں۔ پنجاب سیکرٹریٹ سے ہر ضلع کیلئے ہر سال ڈینگی کی روک تھام کیلئے کروڑوں روپے کا فنڈز جاری ہوتا ہے لیکن اگر یہاں مقامی انتظامیہ سے پوچھو تو ان کا ہمیشہ فنڈز نہ ہونے کا بہانہ ہوتا ہے جس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ ضلع میانوالی اس وقت ڈینگی کی شدید لپیٹ کی طرف گامزن ہے اور خاص کر میانوالی شہر میں یہ ایک وبا کی شکل اختیار کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ذرائع کے مطابق ایک گھر میں آٹھ آٹھ مریض بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
میانوالی شہر کے کئی محلہ جات میں اس کے مریضوں کی تعداد سینکڑوں تک پہنچ چکی ہے لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ حفظ ماتقدم کے طور پر عیسیٰ خیل ، کمرمشانی ، کالاباغ ، داؤد خیل ، موچھ جیسے بڑے قصبات میں تو کُجا میانوالی شہر کے محلہ جات میں اینٹی ڈینگی سپرے نہیں کیا گیا جو کہ اس کو روکنے کا بنیادی ہتھیار ہے۔ ضلعی انتظامیہ سمیت محکمہ صحت اس خطرناک وبا کو روکنے کی بجائے روایتی طور پر مٹی پاؤ پالیسی پر عمل کرنا پیرا ہے۔
ذرائع کے مطابق اس سلسلہ میں محکمہ صحت نے ایک تو پرائیویٹ لیبارٹریز کو احکامات جاری کئے ہیں کہ وہ ضلع بھر کی کسی بھی لیبارٹری میں ڈینگی کے ٹیسٹ نہ کریں تاکہ لوگوں کے سامنے ڈینگی کے مریضوں کی اصل تعداد نہ آئے جبکہ دوسری طرف ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کی اپنی لیب کو زبانی احکامات جاری کئے گئے ہیں کہ ڈینگی کے ٹیسٹ میں مریضوں کو پلیٹلیس کی درست مقدار نہ بتائی جائے بلکہ زیادہ کر کے بتائی جائے تاکہ ہسپتال آنے والا مریض مشتبہ کی فہرست میں رہے۔ اسی لئے جب سی ای او ہیلتھ ڈاکٹر رفیق خان سے ضلع میانوالی میں ڈینگی مریضوں کی تعداد کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا کہ ہمارے پاس ڈی ایچ کیو میں ڈینگی کے لئے مختص کئے گئے وارڈ میں 30 مریضوں کی گنجائش ہے اور ہمارے پاس 25 مریض وارڈ میں موجود ہیں جن میں سے 15 مشتبہ جبکہ آٹھ ایسے مریض ہیں جن کے ایڈریس ضلع میانوالی کے ہیں جبکہ وہ باہر سے آئے ہیں۔
اصل حقائق کو بڑی چالاکی سے چھپانے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے کیونکہ ڈی ایچ کیو ہسپتال میں تعینات شیر انور خان نامی ڈاکٹر بھی ڈینگی کی وجہ سے ہسپتال میں داخل ہے لیکن ڈینگی وارڈ اور ہسپتال میں موجود پرائیویٹ رومز سب مریضوں سے بھر چُکے ہیں جس کی وجہ سے مذکورہ ڈاکٹر کو بھی وہاں کمرہ نہیں مل سکا۔ اصل حقائق ڈاکٹر رفیق خان کی بتائی گئی کہانی سے بالکل برعکس ہیں اور ضلع بھر میں مریضوں کی تعداد بڑھتے ہوئے سینکڑوں تک پہنچ چکی ہے۔ اگر ضلعی انتظامیہ اور سی ای او محکمہ صحت ڈاکٹر رفیق خان سمیت اعلیٰ حکام نے اس سلسلہ میں مٹی پاؤ پالیسی نہ بدلی اور حقائق کو تسلیم نہ کیا تو اس کا نتیجہ بہت مختلف نکل سکتا ہے کیونکہ ضلع میں ڈینگی کی بگڑتی ہوئی صورتحال ایک فوری توجہ کا متقاضی مسئلہ ہے۔ اگر اس پر بروقت اور مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو یہ بحران مزید سنگین ہو سکتا ہے۔
ہمارا فرض ہے کسی بھی مسئلہ پر بروقت توجہ دلانا، پھر نہ کہنا کہ خبر نہ ہوئی۔
واپس کریں