عصمت اللہ نیازی
کمرمشانی سول سوسائٹی گروپ میں سوسائٹی کے صدر اسلم خان شادی خیل نے ممبران سے ایک سوال پوچھا ہے کہ کسی بھی معاشرے کو کیسے خوبصورت بنایا جا سکتا ہے سب دوست تجاویز دیں، تو اس سوال کے جواب میں مًیں نے سوچا کہ کیوں نہ اس پر ایک آرٹیکل لکھنے کی کوشش کی جائے تاکہ اس سے معاشرے میں بسنے والے ہر شہری کو آگاہی حاصل ہو اور وہ اپنا کردار اگر ادا کرنا چاہے تو کر سکے۔ کسی بھی معاشرے کا وہاں پر رہائش پذیر افراد کیلئے خوبصورت ہونا بنیادی ضروریات ہے کیونکہ اگر معاشرہ مختلف پہلوؤں سے خوبصورت ہو گا تو اس میں بسنے والے افراد بھی خوبصورت ہوں گے اور قدرت ہمیشہ خوبصورتی کو پسند کرتی ہے اور خوبصورتی پر زیادہ مہربان ہوتی ہے۔ اس سلسلہ میں کئی پہلوؤں پر کام کرنا ضروری ہے ایک خوبصورت اور خوشحال معاشرے کی تشکیل میں ہر فرد کا کردار بہت اہم ہے اور ہر فرد کو فرض سمجھ کر اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔
معاشرے کو خوبصورت بنانے کیلئے سب سے بنیادی اور اہم چیز تعلیم کی فراہمی ہے کیونکہ ایک تعلیم یافتہ معاشرہ نہ صرف معاشرتی اقدار کو سمجھتا ہے بلکہ ان پر عمل بھی کرتا ہے اچھی تعلیم فراہم کرنا حکومت کا فرض ہوتا ہے لیکن ہمارے جیسے پسماندہ اور حکومتی جبر زدہ معاشرے میں حکومتیں کوشش کرتی ہیں کہ عوام کو اچھی تعلیم سے دُور رکھا جائے تاکہ معاشرے کا شعوری لیول بڑھنے نہ پائے جس سے حکمرانوں کو ہمیشہ خوف رہتا ہے لیکن اس کے برعکس ہمیں خود اس جانب اپنی پوری توجہ اور محنت کرنی پڑے گی اور اپنے وسائل پر بچوں کو روایتی کی بجائے جدید اور اچھی تعلیم دینی پڑے گی۔ اس مقصد کو کامیاب کرنے کیلئے سرکاری تعلیمی اداروں کے اساتذہ اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے اساتذہ کو والدین کے ساتھ مل کر جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہو گا تاکہ ضلع میانوالی کے منفی معاشرہ کا رُخ مثبت سرگرمیوں کی طرف موڑا جا سکے اس کے ساتھ ہمیں مل کر حکومت پر بھی زور دینا پڑے گا کہ وہ تعلیم کے نظام کو بہتر بنائے اور ہر بچے تک معیاری تعلیم کو پہنچانے۔
معاشرے کی خوبصورتی کیلئے صحت اور صفائی دوسری بڑی اور اہم ضرورت ہے کیونکہ صحت اور صفائی ایک دوسرے کے ساتھ جُڑے ہوئے دو پہلو ہیں صحت کیلئے معاشرے میں صفائی کا ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ ماحول صاف ہو گا تو وہاں پر بسنے والے افراد کے ذہن اور سوچ بھی صاف ستھری ہو گی اس لئے ہمیں اپنے اپنے علاقہ کے بلدیاتی اداروں کے ساتھ مل کر کام کرنا ہو گا اگر ہم یہ سوچتے رہیں کہ ہمارے گھر کے سامنے پڑا ہوا کچرا یا گندگی اٹھانا ٹاؤن کمیٹی کے اہلکاروں کی ڈیوٹی ہے تو پھر ہماری گلی محلہ ہمیشہ گندگی کے ڈھیر کی شکل اختیار کر جائے گا کیونکہ ہمارے سرکاری ادارے کئی انتظامی اور معاشی مسائل کا شکار ہیں اس لئے ہمیں اپنے ماحول کو صاف رکھنے کیلئے خود کردار ادا کرنا پڑے گا۔ صحت کی سہولیات کی فراہمی کے لئے بھی سرکاری ہسپتالوں کے ساتھ مل کر ہم کام کریں تاجر حضرات ہسپتالوں کو فنڈز فراہم کریں اور معاشرہ میں رہنے والے دوسرے صاحب ثروت لوگ چندہ دے کر ہپستالوں میں ہر ماہ فری میڈیکل کیمپس کا انعقاد کرائیں تاکہ ضرورت مند لوگوں کو صحت کی سہولیات فراہم کی جا سکیں۔ صحت کی سہولیات کی فراہمی اور عوام میں صفائی کی اہمیت کا شعور پیدا کرنا بھی ضروری ہے۔ صاف ستھرا ماحول نہ صرف صحت کے لئے بہتر ہوتا ہے بلکہ لوگوں کے ذہنی سکون اور خوشی کا بھی باعث بنتا ہے۔ اسی طرح اخلاقی اقدار جیسے ایمانداری، احترام، دیانت داری، اور مددگار رویے کو فروغ دینا ضروری ہے۔
یہ اقدار افراد کو ایک دوسرے کے ساتھ بہتر تعلقات بنانے اور معاشرتی ہم آہنگی پیدا کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ ان اقدار کے فروغ کیلئے ہمیں ابتدائی سطح پر جا کر کام کرنا پڑے گا کیونکہ اخلاقی لحاظ سے ہم بحیثیت معاشرہ بہت انحطاط کا شکار ہیں اور آئے روز نہ صرف ہم اپنی مذہبی اور دینی اقدار سے دوری اختیار کر رہے ہیں بلکہ اپنی علاقائی روایات کو بھی بڑی تیزی کے ساتھ ترک کر رہے ہیں جو کہ کسی بھی معاشرہ کیلئے انتہائی تشویشناک حالت ہوتی ہے لہٰذا ہم سب کو مل کر اپنے پرائمری سکول کے بچوں میں اپنی اچھی روایات کو دوبارہ زندہ کرنے کیلئے کام کرنا پڑے گا، گھر پر اپنے بچوں کو اخلاقی اقدار کے بارے میں آگاہی فراہم کرنی ہو گی۔ اس کیلئے ہم مختلف تعلیمی اداروں میں سیمینار اور لیکچرز کا بندوبست کرتے رہیں تو تب جا کر کچھ تبدیلی سامنے آئے گی۔
اس کے ساتھ معاشرے میں انصاف اور قانون کی بالادستی کا پہلو بھی بہت اہم حیثیت رکھتا ہے کیونکہ ایک خوبصورت معاشرہ وہ ہے جہاں انصاف اور قانون کی بالادستی ہو، قانون کی پاسداری اور انصاف کی فراہمی سے لوگ ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کی عزت کرتے ہیں لہٰذا انصاف کی فراہمی اور قانون کی بالادستی کیلئے سول سوسائٹی میں وکلاء حضرات کی شمولیت بہت ضروری ہے، وکلاء سول سوسائٹی کے نمائندگان کے ساتھ مل کر معاشرے میں بسنے والے کسی بھی عام آدمی کے ساتھ ہونے والی زیادتی کو روک سکتے ہیں اور عدالتوں سے غریب آدمی کو انصاف کی فراہمی میں مدد کر سکتے ہیں اسی طرح تھانے کی سطح پر اگر کوئی اہلکار کسی شہری پر زیادتی کرتا ہے تو سول سوسائٹی گروپ کی طرف سے اعلیٰ سطح پر پریشر ڈال کر اس کا ازالہ کیا جا سکتا ہے اور سول سوسائٹی کے پریشر کی وجہ سے مستقبل میں زیادتیوں کا سلسلہ کم کیا جا سکتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ مندرجہ بالا چند مسائل کو اگر ہم سب مل بیٹھ کر حل کرنے کی سنجیدہ کوشش کریں تو کوئی ایسی ناممکن بات نہیں کہ ہم ایک اچھے معاشرے کا قیام عمل میں نہ لا سکیں ہاں یہ شرط اول ہے کہ اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر اگر ہم صرف معاشرے کی بھلائی کیلئے کردار ادا کرنا چاہیں تو اس سے معاشرے میں ضرور اور بہت جلد تبدیلی دیکھنے کو ملے گی جو ہماری اپنی ذات کیلئے بھی مفید ہو گی کیونکہ ہم سب اس معاشرے کی ایک اکائی کی حیثیت رکھتے ہیں اور ہم سب سے مل کر یہ معاشرہ بنا ہے جیسے ایک ایک اینٹ سے ملکر عمارت بنتی ہے اور اینٹوں کے ایک خاص ترتیب سے ایک مجموعے کا نام عمارت ہوتا ہے ایسے ہی ہم سب سے ملکر یہ معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ اگر ہم تبدیل ہونے کی کوشش کریں گے تو معاشرہ خود بخود تبدیل ہو جائے گا۔ تو آئیں عہد کریں کہ اپنی آنے والی نسلوں کی بہتری کیلئے سول سوسائٹی کو مضبوط کریں کیونکہ
کبھی تو قسمت کُھلے گی میری
کبھی تو میرا بھی کام ہو گا
واپس کریں