دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
"سیاست اور کاروبار میں مذہب کا تڑکا"
عصمت اللہ نیازی
عصمت اللہ نیازی
آج عیسیٰ خیل میں سرِ راہ گزرتے ہوئے ایک نجی سکول کے اشتہاری بینر پر نظر پڑی جس کا نام " کنز الاسلام بیکن سکول". ہے یہ نام پڑھتے ہی عجیب شرمندگی کا احساس ہوا کہ ہم لوگ اپنے ذاتی مفادات کیلئے کس طرح مذہب کو بھی معاف نہیں کرتے۔ "کنز الاسلام بیکن سکول" جیسے نام اس بات کی علامت ہیں کہ اس ملک میں سیاست کے علاوہ کاروباری دنیا میں بھی مذہب کو ایک تجارتی حکمتِ عملی کے طور پر اپنایا جاتا ہے کیونکہ بیکن ہاؤس ایک جدید مغربی تعلیمی ادارہ ہے جس کا "کنز الاسلام" سے کوئی دُور کا بھی تعلق نہیں لیکن اس نام کے ذریعے مذہب کا تڑکا لگا کر سادہ لوح عوام کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سیاست میں مذہب کا استعمال تو ہمارا پرانا ہتھیار تھا جسے ہر سیاست دان نے اپنی پوری کوشش سے استعمال کیا ہے۔ سب سے پہلے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے تحریکِ پاکستان کے دوران "مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ" کا نعرہ لگا کر اس سے سیاسی فائدہ اٹھایا اور برصغیر کے مسلمانوں کو ایک سیاسی پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کوشش کی۔ اسی طرح ہمارے ملک کے ماضی کے معروف سیاسی راہنما ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی سوشلسٹ پالیسیوں کو اسلامی رنگ دینے کی کوشش کی تاکہ مذہبی طبقہ کی حمایت حاصل کی جا سکے۔ انہوں نے جمعہ کی چھٹی اور شراب پر پابندی لگا کر سیاست میں عوامی پذیرائی حاصل کرنے کی کوشش کی حالانکہ وہ خود شراب کے بہت بڑے رسیا تھے۔ اسی طرح جنرل ضیاء الحق نے تو مذہب کو ریاستی پالیسی کا مرکزی ستون بنا دیا اور انہوں نے نہ صرف اسلامی سزاؤں جیسے قوانین متعارف کراۓ بلکہ جہاد کو ریاستی پالیسی کا حصہ بنا ڈالا اور مدرسوں کے نیٹ ورک کو وسعت دے کر اتنی اہمیت دی جس کا خمیازہ آج تک قوم بھگت رہی ہے۔ نواز شریف نے اپنے سیاسی بیانیہ میں اسلامی اقدار کی پاسداری کا نعرہ بلند کیا یہاں تک کہ 1998 میں شریعت بل پیش کر دیا جس میں وزیراعظم کو امیر المومنین بنانے کی کوشش کی گئی تاہم ان کا اصل مقصد مذہب کے ذریعے عوامی مقبولیت حاصل کرنا تھا نہ کہ حقیقی اسلامی نظام کا نفاذ۔ اسی طرح آج کل کے ہردلعزیز سیاسی لیڈر عمران خان نے سیاست میں مذہب کے استعمال کو ایک نئی طرز پر متعارف کرایا اور انہوں نے ریاستِ مدینہ کا نعرہ لگایا اور خود کو اسلام کا علمبردار بنا کر پیش کیا تاہم ان کی حکومت میں بھی مذہبی عناصر کا استعمال زیادہ تر سیاسی فائدہ کے لیے کیا گیا اور ان کی ریاستِ مدینہ کا ماڈل عملی طور پر ایک سیاسی نعرہ ہی ثابت ہوا۔ مختصراً یہ کہ پاکستان میں سیاست اور کاروبار میں مذہب کا استعمال ایک عام روایت بن چکا ہے جہاں سیاسی جماعتیں مذہبی نعروں سے عوام کو متاثر کرنے کی کوشش کرتی ہیں جبکہ کاروباری طبقہ اسلامی شناخت کو برانڈنگ کے طور پر استعمال کرتا ہے جس کے نتیجہ میں شاید سیاسی اور کاروباری طبقہ کو تو فائدہ پہنچ رہا ہے لیکن اس عمل سے نہ صرف مذہب کی اصل روح متاثر ہو رہی ہے بلکہ عوام میں مذہبی شدت پسندی بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مذہب کو ایک سیاسی یا تجارتی ہتھیار بنانے کے بجائے اُسے خالصتاً روحانی اور اخلاقی بہتری کے لیے استعمال کیا جائے۔
واپس کریں