دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
معاشرے میں جنسی تفریق
عصمت اللہ نیازی
عصمت اللہ نیازی
آج سے تقریباً 10 سے 12 ہزار سال قبل انسان کی زندگی میں بہت اہم موڑ آیا اور اس نے جنگلوں میں شکار چھوڑ کر دوڑنے بھاگنے کی زندگی سے آہستہ آہستہ کنارہ کشی کر لی اور اس دور میں انسان نے شکار اور اکٹھا کرنے کی زندگی چھوڑ کر کھیتی باڑی اور مویشی پالنے کی شروعات کی تھی، جس سے انسانی تہذیب میں بہت بڑی تبدیلی رونما ہوئی۔ زرعی انقلاب سے قبل خواتین کا معاشرہ تھا اور مردوں کی جگہ ہر کام خواتین کی مرضی کے مطابق کیا جاتا۔ زرعی انقلاب کے بعد جب کام کی نوعیت بدلی اور سخت کام کی ضرورت پیش آئی تو آہستہ آہستہ مردوں کی اہمیت بڑھنے لگی چند سو سالوں میں سوسائٹی پر مرد کا اثر و رسوخ بڑھ گیا کیونکہ انسان ہمیشہ سے معاشیات کے زیر سایہ چلا ہے، ان تمام حالات کے پیش نظر ہمارا مزاج، رسم و رواج اور روایات بھی بدلنے لگیں اس طرح مرد نے اپنی طاقت کے زور پر معاشرے پر قبضہ کر لیا اور جب معیشت مرد کے قبضہ میں آ گئی تو پھر اُس نے سب کچھ بدل کر رکھ لیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سوسائٹی کے اتار چڑھاؤ میں سب سے اہم کردار معیشت کا ہے آپ اکثر اس بات کا مشاہدہ کرتے ہوں گے کہ جنسی تفریق کا اصل محرک بھی یہی معاشیات بنتی ہے۔ مثال کے طور پر ہم بھینس کا کٹا اس کی چھوٹی عمر میں ہی ذبح کر دیتے ہیں کیوں کہ وہ بڑا ہو کر اتنی قیمت کا فروخت نہیں ہوتا۔ اسی طرح کٹی کو بڑی اہمیت دے کر اُسے بھینس بنایا جاتا ہے کیونکہ وہ دودھ دیتی ہے۔ گائے کا بچھڑا پال لیتے ہیں کیوں کہ وہ بڑا ہو کر ہل چلاتا ہے یا عید قربانی پر اچھے پیسے دے جاتا ہے۔ یہی حال جانوروں کی بجائے انسانوں کے ساتھ بھی کیا جاتا ہے۔ جو باپ ہیرا منڈی میں رہتا ہے وہ بیٹیوں کی پیدائش پر داتا دربار پر دیگیں بانٹتا ہے کیونکہ اُنہی بیٹیوں کی وجہ سے اسکا گھر چلتا ہے جبکہ بیٹے اُس کے گھر پر بوجھ ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ انہیں اہمیت نہیں دیتا۔ مقامی سطح پر ہمارے معاشرے میں بھی اگر بیٹی پیدا ہو جائے تو انتہائی ناگواری کا اظہار کیا جاتا ہے کیونکہ اس پورے سسٹم میں والدین اپنا بڑھاپا محفوظ بنانے کیلئے اولاد پیدا کرتے ہیں بیٹا کما کر لاتا ہے جبکہ رسم و رواج کے مطابق بیٹی نہ صرف گھر میں بیٹھ کر کھاتی ہے بلکہ لے کر جاتی ہے جس کی وجہ سے ہم بیٹے کی پیدائش پر دوستوں رشتہ دوروں کو مٹھائیاں کھلاتے ہیں جبکہ بیٹی کی پیدائش پر رشتہ داروں سمیت معاشرہ کے طعنے سنتے ہیں۔ صنعتی انقلاب کے بعد ترقی یافتہ معاشروں نے اپنے اس مائنڈ سیٹ میں بھی تبدیلی کر لی ہے اور مردوں کے ساتھ خواتین کو بھی کام پر لگا کر معیشت میں ان کا کردار جب برابر کیا ہے تو آٹومیٹکلی خواتین کی اہمیت معاشرے میں مردوں کے برابر ہو گئی ہے۔ میرے خیال میں جب تک ایک ایسا سماج وجود میں نہیں آتا جہاں والدین اور بزرگ بیٹوں کے ساتھ بیٹیوں کی بھی ذمہ داری ہوں تب تک آپ بے شک جتنی مرضی خواتین کے حقوق کی بات کریں، مذہبی کتابوں کے حوالے دیں یہ صرف کتابی باتوں تک ہی ہو گا اس کا نفاذ ناممکن ہے کیونکہ اس کا وعظ کرنے والے خود عورت کی دوسرے درجہ کی مخلوق کہتے ہیں۔ آئیں سب مل کر عورت کو معیشت میں حصہ ڈالنے کی اجازت دیں، عورتوں پر بھی مردوں کی طرح ذمہ داری ڈالیں اور انہیں ذمہ داری نبھانے کے قابل بنائیں جس طرح بچپن سے اپنے بیٹوں کو اچھی تعلیم سمیت آگے بڑھنے کی سہولیات فراہم کرتے ہیں اسی طرح اپنی بیٹیوں کو بھی آن کے برابر سہولیات دیں کیونکہ خواتین بھی معاشرے میں تناسب کے لحاظ سے آدھے کی مالک ہیں اگر معیشت میں معاشرے کی آدھی آبادی حصہ نہیں بٹائے گی تو ہم نے خاک ترقی کرنی ہے۔ ذرا سوچئے گا ضرور ۔۔۔
واپس کریں