"پاکستان کا فرسودہ تعلیمی نظام، دھرتی پر ڈگریوں کا بوجھ "
عصمت اللہ نیازی
اگر کسی دن زمین کو زبان مل جائے اور وہ اچانک بولنا شروع کر دے تو سب سے پہلے پاکستانی نوجوانوں کو بس یہی کہے گی کہ بس کرو بھائی اب مجھ سے مزید ڈگریوں کا بوجھ برداشت نہیں ہوتا۔ آپ یقین کریں پاکستان میں تعلیمی نظام ایسا ہے جیسے ون ڈالر شاپ پر رکھے پرانے ٹیپ ریکارڈر سے ایک ہی گانا بجایا جا رہا ہو کہ ادھر آ جاؤ ڈاکٹر کی ڈگری لے جاؤ، انجینئر کی ڈگری لے لو یا پھر کلرک ہی بن جاؤ۔ ہنر اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کے بغیر ہمارا نظام محض ڈگریوں کی فیکٹری بن چکا ہے جہاں طالب علم داخل ہو کر "یونیورسٹی گریجویٹ" کا ٹیگ تو لگا کر نکلتا ہے مگر عملی زندگی میں "مجھے نوکری دو، میں محنت کرنے کے قابل نہیں" کی تختی اٹھائے پھرتا ہے۔ ہنر ایک تاریخی عمل ہے اور اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو قدیم مصری، چینی، یونانی اور ہندوستانی تہذیبوں میں ہنر مندی کو مرکزی حیثیت حاصل تھی لیکن اگر اہرامِ مصر کے انجینئر اور مزدور آج کے پاکستانی تعلیمی نظام سے فارغ التحصیل ہوتے تو شاید ایک دیوار بھی سیدھی نہ بنا پاتے اور تمام اہرام پیسہ ٹاور کی طرح ایک طرف جھکے ہوئے ہمارے انجینئرز کو سلامی پیش کر رہے ہوتے جبکہ ہڑپہ اور موہنجودڑو کے لوگ اگر آج زندہ ہوتے تو ہمیں پانی کی نکاسی کا سسٹم سکھا رہے ہوتے کیونکہ آج بھی بارش میں کمرمشانی سیوریج کا جدید نظام جب لیول آؤٹ ہونے کی وجہ سے ریورس مارتا ہے تو نہ صرف اہل علاقہ کی لیٹرین گندے پانی سے بھر جاتی ہیں بلکہ صحن اور گلی محلے دریائے سندھ کا منظر پیش کرنے لگتے ہیں۔ اب ذرا ترقی یافتہ اقوام جاپان، جرمنی اور چین کی طرف نظر دوڑا لیں جہاں تعلیم اور ہنر ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ جاپانی اسکولوں میں روبوٹکس، مکینکس اور پروگرامنگ سمیت سائیکل کو پنکچر لگانے تک کا ہنر بچپن سے سکھایا جاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں بچے ساتویں جماعت میں بھی اے فار ایپل اور بی فار بال ہی پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ جرمنی میں "ڈوئل ایجوکیشن سسٹم" ہے جہاں طلبہ تھیوری کے ساتھ ساتھ عملی کام بھی سیکھتے ہیں ہمارے ہاں تو اگر کسی نے کمپیوٹر سائنس میں ڈگری لی ہو تو نوکری کے انٹرویو میں پہلا سوال یہی ہوتا ہے: "بیٹا ونڈوز انسٹال کرنی آتی ہے؟ چین میں ٹیکنیکل ایجوکیشن اور ووکیشنل ٹریننگ ہر طالبعلم کے لیے لازم ہے اسی لیے وہاں 14 سالہ بچہ بھی موبائل فون کی اسمبلنگ کر سکتا ہے جبکہ ہمارے ہاں یونیورسٹی کا فارغ التحصیل انجینئر بھی پنکھا صحیح کرنے کے لیے الیکٹریشن چاچا کو بلاتا ہے۔ اور یہ سب اس لئے ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم کا معیار ایسا ہے کہ طلبہ امتحان سے پہلے 40 اہم سوالات رٹ کر کمرہ امتحان میں جاتے ہیں اور اگر پرچہ میں 41 واں سوال آ جائے تو ہمارے بچے یوں دیکھتے ہیں جیسے ناسا کے سائنسدان نے ان سے چاند پر جانے کا فارمولا پوچھ لیا ہو۔ ہاں رٹہ کے ذریعے نمبروں کی دوڑ لگی ہوئی ہے کیونکہ اس ملک میں ایک عجیب منطق ہے کہ جو سب سے زیادہ نمبر لے وہ ڈاکٹر بنے، جو تھوڑے کم لے وہ انجینئر، جو سب سے کم لے وہ یا تو باہر مزدوری پر چلا جائے یا پھر اپنا کاروبار شروع کر لے اور کچھ عرصہ بعد ان ڈگری والوں کو دس ہزار تنخواہ پر ملازم رکھ لے۔ لیکن مجھے بہت افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ریاست پر قابض طبقہ کو ہماری اولادوں کی صورت میں ایسے ہی نوجوان نسل چاہیے جو ساری زندگی حکومت سے نوکری لینے کے لالچ میں ٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگتی پھرے اور ہم ان کے مقاصد کی تکمیل میں سر تسلیم خم کئے ہوئے ہیں۔ اگر اب بھی ہم راستہ بدل لیں اور راہ راست پر آ جائیں اور اپنے آنے والی نسل میں ووکیشنل ایجوکیشن کو عام کریں، سکول اور کالج کی سطح پر ہنر سکھانے کو لازمی قرار دے دیں، یونیورسٹیوں کا انڈسٹری کے ساتھ تعلق جوڑ کر ایسے طلبہ پیدا کریں جو مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق مہارت رکھتے ہوں، روایتی مضامین میڈیکل، انجینئر اور سی ایس ایس پر زور دینے کے بجائے مصنوعی ذہانت، ڈیجیٹل مارکیٹنگ، مکینیکل ورک اور دیگر جدید مہارتوں پر زور لگائیں، امتحانی نظام کو رٹہ خوری کی بجائے تخلیقی سوچ اور عملی مہارتوں سے جوڑ دیں تو شاید مستقبل میں یہ قوم ترقی کی راہ اختیار کر لے ورنہ یہ ملک صرف ڈگری ہولڈرز کی فوج پیدا کرتا رہے گا جو فیس بک پر " نوکریاں دستیاب ہیں" کے گروپس میں پوسٹس کرتے رہیں گے جبکہ دنیا آگے سے آگے نکل کر روبوٹ، مصنوعی ذہانت اور جدید ٹیکنالوجی کا انقلاب لے آئے گی اور ہم شاید حکمرانوں کو گالیاں اور بددعائیں دے کر اپنی تسلی کرتے رہیں گے۔
واپس کریں