عصمت اللہ نیازی
پاکستان گزشتہ چالیس برسوں سے افغان مہاجرین کی میزبانی کرتا آ رہا ہے۔ 1979 میں سوویت یونین کے افغانستان پر حملہ کے بعد اُس وقت کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے فیصلہ پر لاکھوں افغان شہری پاکستان ہجرت کر آئے، وہ فیصلہ ٹھیک تھا یا غلط یہ ایک علیجدہ بحث ہو سکتی ہے۔ لیکن کہا یہی گیا کہ ان کو پاکستان میں مہاجرین کے طور پر رہائش پذیر ہونے کی اجازت انسانی ہمدردی کے جذبے اور اسلامی بھائی چارے کے تحت دی گئی ۔ ان لاکھوں مہاجرین کو تعلیم، صحت، روزگار، اور رہائش کی سہولیات فراہم کی گئیں۔ مگر اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اس مہمان نوازی کا اختتام کریں ہاں یہ اختتام باعزت طریقہ سے ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ موجودہ ملکی حالات اس بوجھ کو مزید اٹھانے کی اجازت نہیں دیتے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (UNHCR) کے مطابق پاکستان میں اب بھی تقریباً 13 لاکھ رجسٹرڈ افغان مہاجرین موجود ہیں جب کہ غیر رجسٹرڈ افراد کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ میرے خیال میں پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک جہاں خود لاکھوں لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں وہاں اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین کا بوجھ ایک ناقابل برداشت حقیقت بن چکا ہے۔ ہمارے بہت سے لوگ سابقہ حکمرانوں کے افغان مہاجرین کو پاکستان بلانے کے فیصلہ کا لاکھ دفاع کریں لیکن افغان مہاجرین کی موجودگی سے نہ صرف معاشی دباؤ بڑھا ہے بلکہ امن و امان کی صورتحال بھی بہت زیادہ متاثر ہوئی ہے مختلف رپورٹوں اور سیکیورٹی اداروں کے تجزیوں کے مطابق نہ صرف کئی دہشت گرد افغانستان سے ان افغان مہاجرین کے روپ میں پاکستان میں داخل ہوتے ہیں بلکہ ان کے نیٹ ورکس مہاجر کیمپوں اور افغانیوں کے گھروں کو پناہ گاہوں کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں اور یہ افغان شہری ان کی پوری سپورٹ کرتے ہیں۔اسی طرح گذشتہ چالیس سالوں میں انہی کی وجہ سے اس ملک میں فرقہ واریت کے خونخوار کانٹے بھی بکھیرے گئے ہیں جن کو چُننا شاید اب ممکن نظر نہیں آتا۔ اگرچہ یہ کہنا مناسب نہیں کہ تمام افغان مہاجرین ایسے عناصر میں ملوث رہے تاہم چند فیصد کی سرگرمیوں نے مجموعی طور پر ہمارے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اس کے ساتھ تعلیم، صحت اور دیگر عوامی سہولیات پر بھی افغان مہاجرین کے اثرات واضح ہیں جس کی ایک چھوٹی سی مثال میں یہاں گورنمنٹ ہائی سکول کمرمشانی کی دوں گا جہاں کل طلبہ کی تعداد 26 سو ہے جن میں سے 350 طلبہ افغان مہاجرین ہیں، اس سکول میں حکومت کی جانب سے فراہم کردہ اساتذہ، بجٹ اور دیگر سہولیات جب ان اضافی طلبہ پر تقسیم ہوتی ہیں تو مقامی بچوں کا حق بری طرح متاثر ہوتا ہے اور اگر ان غیر مقامی طلبہ کا انخلاء ہو جائے تو انہی وسائل سے 2250 کمرمشانی کے بچوں کو بہتر تعلیمی ماحول فراہم کیا جا سکتا ہے۔ یہ تو ایک سکول کی مثال تھی اسی طرح اسپتالوں میں رش، روزگار کی کمی، رہائش کے مسائل اور مقامی مزدوروں کی مزدوری اور زمینداروں سے مہنگی زمین ٹھیکہ پر لینے سے عام کسان بھی متاثرین میں شامل ہیں کہ کچہ کمرمشانی کی جو زمین ستر سے اسی کلو سالانہ پر ملتی تھی افغان مہاجرین اسے 120 کلو کے حساب سے لے لیتے۔ اب جبکہ حکومتِ پاکستان نے بالآخر ایک واضح پالیسی کے تحت مرحلہ وار ان مہاجرین کی واپسی کا عمل شروع کیا ہوا ہے جو اب اپنے آخری مرحلہ میں داخل ہو چکا ہے۔ اس فیصلہ کو بعض بین الاقوامی ادارے اور ہمارے مقامی سیاست دان تنقید کا نشانہ بھی بنا رہے ہیں مگر ایک خودمختار ریاست کے طور پر پاکستان کو اپنی قومی سلامتی، معیشت اور وسائل کے تحفظ کا پورا حق حاصل ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ حکومت کا بہت زبردست اور بروقت فیصلہ ہے کیونکہ اِن افغان مہاجرین کی واپسی سے نہ صرف پاکستان کی معیشت پر بوجھ کم ہو گا بلکہ امن و امان کی صورتحال بھی بہتر ہو گی اسی طرح عوامی سہولیات صرف پاکستانی شہریوں کے لیے میسر آئیں گی۔ یہ ایک کڑوا مگر ضروری فیصلہ ہے جس پر نہ صرف عملدرآمد سختی سے جاری رہنا چاہیے بلکہ عالمی برادری کو بھی چاہیے کہ وہ پاکستان کی اس کاوش کا اعتراف کرے اور افغانستان میں ان مہاجرین کی بحالی کے لیے مالی و تکنیکی مدد فراہم کرے۔
واپس کریں