دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
رورل ہیلتھ سنٹر کمرمشانی
عصمت اللہ نیازی
عصمت اللہ نیازی
کچھ روز سے سوشل میڈیا پر شور برپا ہے کہ پنجاب حکومت ضلع میانوالی سمیت رورل ہیلتھ سنٹرز اور بنیادی مراکز صحت کو آؤٹ سورس کر رہی ہے۔ آؤٹ سورس کا لفظ لوگوں کو بے وقوف بنانے کیلئے ایک نئی اصطلاح کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے کیونکہ محکموں کو پرائیویٹ کر کے جس طرح ماضی میں سب سیاسی جماعتوں نے ہاتھ رنگے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں جس کی وجہ سے لفظ پرائیویٹ اتنا بدنام ہو گیا ہے کہ اب اُس کی جگہ آؤٹ سورس لکھنا پڑ گیا ہے اور موجودہ حکومت کے کئی حامی بھائی ہمیں آؤٹ سورس کے نہ صرف اچھے معنی بتانے کی کوشش کر رہے ہیں بلکہ اس کے فیوض و برکات بھی سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اب مزے کی بات تو یہ ہے کہ ضلع میانوالی میں مرے ہوئے کو اور کتنا مارنا ہے کہ یہ تو اُن سولہ اضلاع میں پہلے سے ایک ہے جس کے رورل ہیلتھ سنٹرز اور بنیادی مراکز کئی سالوں سے ایک پی ایچ ایف ایم سی نامی پرائیویٹ کمپنی کو دئیے جا چکے ہیں جس نے سب کے سامنے پورے ضلع کے ہسپتالوں کا بیڑا اس طرح غرق کر دیا ہے کہ میرے خیال میں اب تو کوئی ولی بھی نہیں تار سکتا۔ یہ پرائیویٹ کمپنی صرف ضلع میانوالی میں گذشتہ ایک دہائی سے بیوروکریسی کے ساتھ مل کر کروڑوں روپے سالانہ نہیں بلکہ ماہانہ لُوٹ رہی ہے لیکن بیوروکریسی چونکہ خود اس میں حصہ دار ہے تو اس جانب کبھی آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔
ڈپٹی کمشنر کا عہدہ میرے خیال میں بہت بڑا عہدہ ہے اور اختیارات کے لحاظ سے وہ ضلع کا مالک ہوتا ہے لیکن میں یہاں اس کالم کی وساطت سے خالد جاوید گورایہ ڈپٹی کمشنر میانوالی کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ پی ایچ ایف ایم سی سے ضلع میانوالی کا ماہانہ وصول کیا جانے والا بل تفصیلاً حاصل کر لیں تو میں انہیں سلوٹ ماروں گا اگر وہ اس کا صرف ایک ماہ کا بل پبلک کر دیں یا کم از کم لی جانے والی ٹوٹل رقم ہی عوام کو بتا دیں۔ اسی طرح یہ چیلنج اس حلقہ کے ایم این اے جمال احسن خان اور ایم پی اے اقبال خٹک کے ساتھ موجودہ حکومت میں شامل سیاسی شخصیت امانت الله خان شادی خیل سابق صوبائی وزیر آبپاشی کیلئے بھی ہے۔ اس کمپنی کی بدمعاشی کا یہ حال ہے کہ حکومت کا ان کے ساتھ معاہدہ میں لکھا ہوا ہے کہ وہ ضلع اور تحصیل سطح پر اپنے دفاتر پرائیویٹ جگہ پر خود بنائیں گے اور ان دفاتر کا خرچہ بھی خود اٹھائیں گے لیکن ضلع میانوالی میں دس سال سے انھوں نے ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی کے دفتر کی سرکاری عمارت میں اپنا دفتر بنا رکھا ہے اور اس کا سارا خرچ حکومت اٹھا رہی ہے۔ اب رہی کروڑوں روپے ماہانہ حکومت سے لے کر عوام کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے کی تو آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ رورل ہیلتھ سنٹر کمرمشانی کو جو ماہانہ بجٹ یہ فراہم کرتے ہیں وہ 17 ہزار روپے ہے اور رورل ہیلتھ سنٹر کمرمشانی میں ماہانہ کم از کم 5 ہزار مریض آتے ہیں اس طرح ہر مریض کو تقریباً ساڑھے تین روپے کی دوائی ملتی ہے اب یہ جان کر آپ پریشان ہو گئے ہیں یا آپ کی ہنسی کنٹرول نہیں ہو رہی لیکن یہ بات میں آن ریکارڈ کر رہا ہوں۔
رورل ہیلتھ سنٹر میں خواتین کے بڑے آپریشن کیلئے آپریشن تھیٹر کو آپریشنل کرنا اور اُس میں گائناکالوجسٹ تعینات کرنا ان کا فرض ہے لیکن اس سنٹر کے آپریشن تھیٹر میں ناک کاٹنے کیلئے بھی چُھری دستیاب نہیں کہ بندہ پی ایچ ایف ایم سی کے ڈسٹرکٹ مینیجر کی ناک ہی کاٹ دے۔ یہ سہولیات تو تھیں رورل ہیلتھ سنٹر کی جو پی ایچ ایف ایم سی فراہم کر رہی ہے اور اگر بنیادی مراکز کی بات کریں تو وہاں اس سے بھی گھٹیا صورتحال ہے۔ حکومت کے کروڑوں روپے ضائع کرنے کے باوجود اگر آپ رات کو رورل ہیلتھ سنٹر جائیں تو آپکو ایمرجنسی کیلئے بھی ایک انجکشن فراہم نہیں کیا جاتا اور مریض کو رات کی تاریکی میں بند میڈیکل سٹوروں پر بھٹکنا پڑتا ہے۔ اب آ جائیں دوسری طرف جہاں کروڑوں روپے کمیشن مافیا کیسے کھا جاتا ہے۔
ہسپتال کا اصل کام عوام کو صحت کی سہولیات اور ادویات کی فراہمی ہے لیکن جس ہسپتال میں سر درد اور پیٹ درد کی ایک گولی نہیں ملتی وہاں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میانوالی میں گذشتہ پانچ سال میں تین مرتبہ پورے ہسپتال کے فرش اکھاڑ کر نئی ٹائلیں لگا دی جاتی ہیں یعنی ہر دو سال کے بعد حکم آ جاتا ہے کہ گذشتہ سال لگائی گئی کروڑوں روپے مالیت کی ٹائلیں فی الفور توڑ کر نئی ٹائلیں لگا دی جائیں اور ایسا ظلم تین مرتبہ ہو چکا ہے۔ اسی طرح رورل ہیلتھ سنٹر کمرمشانی میں بھی کچھ سال قبل فرش ر لگائی گئی ٹائلیں جو ابھی تک بالکل نئی ہیں اُن کو اکھاڑ کر تقریباً تین کروڑ روپے کے بجٹ سے نئی ٹائلوں کے احکامات جاری ہو چکے ہیں اور اس سلسلہ میں پورے ہسپتال کو خالی کرایا جا چکا ہے اور ٹھیکیدار کام شروع کرنے جا رہا ہے جبکہ پورے ہسپتال کی چھتیں جو عرصہ دراز سے ٹپک رہی ہیں اور بارش کا پانی اندر کمروں میں دوڑتا ہے اور تمام کمروں کی دیواروں میں اتنے بڑے کریک آ چکے ہیں کہ اُن میں سے کتا بھی گزر جائے گا اُن کی مرمت کے بارے میں نہیں سوچا جا رہا بلکہ بس فرش پر ٹائیلز لگانے کی انوکھی بیماری اوپر والوں کو لگ چکی ہے۔
میری تو درخواست ہے کہ یہ ٹائلیں فرش کی بجائے چھت پر لگا دی جائیں کم از کم چھت تو نہیں ٹپکے گی اور ساتھ میں اس مافیا کو کمیشن بھی بچ جائے گا۔ موجودہ حکومت میں شامل سیاسی لیڈروں اور ضلعی انتظامیہ سے ہاتھ جوڑ کر اپیل ہے کہ خدارا ٹائیلوں والے تین کروڑ روپے کی ہمیں ادویات فراہم کر دیں تاکہ غریب عوام کو کچھ تو ریلیف ملے فرش پر لگی ٹائلوں کو ہم نے چاٹنا ہے یا ایمرجنسی میں آئے ہوئے مریض نے دواؤں کی بجائے فرش پر لیٹنا ہے؟ خدارا کچھ تو خیال کرو کیوں اس طرح غریب عوام کے خون پسینہ کی کمائی کو اللوں تللوں پر خرچ کرتے ہو آگے جا کر الله کے ہاں ایک ایک روپے کا حساب دینا پڑے گا۔
واپس کریں