دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
موت کو شکست
عصمت اللہ نیازی
عصمت اللہ نیازی
گذشتہ دنوں ایک سائنسی تحقیق کی ویب سائٹ پر معروف شخصیت ایلون مسک کے پراجیکٹ "نیورولنک" کے بارے میں تفصیل سے آگاہی حاصل ہوئی جس میں سائنسدان موت کو شکست دینے کے بالکل قریب پہنچ چکے ہیں۔ یہ ایک ایسا خواب ہے جسے انسان ازل سے دیکھتا آیا ہے۔ انسانی تاریخ کے آغاز سے ہی موت ایک ایسی حقیقت رہی ہے جسے ہر ذی روح نے قبول کیا ہے خواہ انسان جتنا بھی طاقتور ہو یا ترقی یافتہ، موت سے راہِ فرار ممکن نہیں ہے۔ موت زندگی کا ایک ایسا باب ہے جسے ہر زندہ وجود کو پڑھنا پڑتا ہے لیکن انسانی فطرت ہمیشہ اس کے خلاف بغاوت پر اُترتی رہی ہے انسان ہمیشہ سے موت کو شکست دینے کے خواب دیکھتا رہا ہے اور سائنس کی ترقی کے ساتھ یہ خواب اب حقیقت کی سرحدوں کے قریب پہنچ چکا ہے۔ اس سے قبل قدیم تہذیبوں میں بھی انسان نے مختلف طریقوں سے موت کو شکست دینے کی لاحاصل کوششیں کی ہیں جیسے مصری فراعین اپنی لاشوں کو محفوظ کرنے کے لیے ممی بنا کر حنوط کر لیتے تھے تاکہ وہ قیامت کے دن دوبارہ زندہ ہو سکیں اسی طرح یونانی فلسفیوں نے بھی انسانی زندگی کو طول دینے کی خواہش کی مگر انسانی خواہش کے برعکس موت ہمیشہ غالب آتی رہی۔ لیکن آج کے جدید دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی نے انسان کو ایسے آلات فراہم کر دیے ہیں جن کی مدد سے زندگی کو نہ صرف طویل کیا جا سکتا ہے۔
ادویات، جینیاتی تحقیق سمیت دیگر جدید سائنسی تحقیقات کی بدولت انسانی عمر میں اضافہ ہوا ہے لیکن موت پھر بھی اپنی جگہ برقرار ہے۔ اب نئی سائنسی تحقیق کی بدولت ایک نیا اور انقلابی تصور سامنے آیا ہے جس میں یہ خیال پیش کیا جا رہا ہے کہ انسان موت کو ہمیشہ کے لیے شکست دے سکتا ہے جو کسی حد تک سچ بھی مانا جا سکتا ہے۔ اس سلسلہ میں ایلون مسک کی کمپنی 'نیورولنک' ایک انتہائی دلچسپ منصوبہ پر کام کر رہی ہے اس کمپنی نے ایک ایسی چِپ تیار کی ہے جو براہِ راست انسانی دماغ کے ساتھ منسلک کی جاتی ہے اور اس چِپ کا مقصد انسانی دماغ کی تمام معلومات کو نہ صرف ریکارڈ کرنا اور ان کا تجزیہ کرنا ہے بلکہ اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان دماغ کے ذریعے ایک تو کمپیوٹرز اور دیگر مشینوں کو کنٹرول کر سکے دوسرا اس پروجیکٹ کا ایک حیران کن پہلو یہ بھی ہے کہ اس ڈیٹا کو کاپی کر کے کسی دوسرے ہومو روبوٹ یا انسانی جسم میں منتقل کیا جا سکے۔ میرے خیال میں یہ ایک ممکن بات ہے کیونکہ 'نیورولنک' نے پہلا کامیاب تجربہ کرتے ہوئے انسانی دماغ کا محدود پیمانہ پر ڈیٹا نہ صرف پڑھ لیا ہے بلکہ اسے کاپی بھی کر لیا ہے۔
اس طرح اگر یہ منصوبہ کامیاب ہو گیا اور انسان کے ذہن کا تمام ڈیٹا کسی ہومیو روبوٹ میں منتقل کر دیا گیا تو نظریاتی طور پر انسان جسمانی موت کے باوجود زندہ رہ سکے گا کیونکہ اُس نئے جسم کے ساتھ انسان کی شعور اور شخصیت برقرار رہ سکتی ہے اور یوں ایک نیا وجود تشکیل پائے گا جو موت سے آزاد ہو گا۔ گذشتہ دن اس منصوبہ پر بحث کے دوران ہمارے ایک صاحب علم دوست ریاض خالق نے اس منصوبہ پر کچھ سوالات بھی اٹھائے ہیں جو کہ میں سمجھتا ہوں کسی حد تک درست ہیں اُن کا کہنا تھا کہ انسانی ذہن میں شعور، احساسات اور یادداشتیں ایک پیچیدہ نیورل نیٹ ورک پر مبنی ہوتی ہیں جن کا تعلق ہماری ذات سے ہوتا ہے یعنی "میں" اور میرے جسم میں ایک خاص تعلق قائم ہے اور اگر میرا ذہنی ڈیٹا کسی ربورٹ میں منتقل کر دیا جائے تو نئی زندگی کیا واقعی "زندگی" کہلائے گی؟ اور اگر ایک ہومیو روبوٹ میں میرے ذہن کا ڈیٹا منتقل کر دیا جائے تو کیا مَیں خود کو زندہ تصور کر سکوں گا اور کیا مَیں انسانی جذبات، احساسات اور شعور کا حقیقی طور پر تجربہ کر پاؤں گا یا محض ایک مشینی نقل بن کر رہ جاؤں گا؟ ریاض خالق کے سوالات اپنی جگہ درست سہی لیکن اگر 'نیورولنک' جیسا منصوبہ کامیاب ہو جاتا ہے تو موت کو شکست دینے کا خواب اب تعبیر کے بالکل قریب ہے جو انسانی تاریخ کو بدل کر رکھ دے گا جس کی وجہ سے ایک دن ایسا بھی آ سکتا ہے جب موت محض ایک تصور بن کر رہ جائے گا اور انسان ہمیشہ کے لیے زندہ رہ سکے گا۔
یہ انسان کیلئے ایک مسحور کن تصور ہے جو اگر تو حقیقت کا روپ دھار گیا تو انسان سب سے قدیم اور سب سے بڑے چیلنج پر قابو پا لے گا دوسری صورت میں موت نہ صرف زندگی کا لازمی جزو رہے گی بلکہ اس کو شکست دینے کی انسانی کوشش بھی جاری رہے گی
واپس کریں