عصمت اللہ نیازی
ضلع میانوالی کی اکثریت چونکہ افغانستان سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئی ہے تو افغانستان سے پٹھان بہت سی روایات بھی اپنے ساتھ لائے اسی وجہ سے یہ ضلع ایک روایتی اور قبائلی پس منظر رکھنے والا ضلع ہے، جہاں صدیوں سے ثقافتی اقدار اور رسوم و رواج نے زندگی کے ہر پہلو پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ ان روایات میں بعض ایسی بھی ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر دنیا کے تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ گذشتہ دنوں میانوالی میں ہونے والے نیزہ بازی کے ایک مقابلہ میں کچھ خواتین نے حصہ لیا جو میانوالی سے باہر کے علاقوں سے آئی تھیں۔ ان کی شرکت کو کچھ حلقوں میں مثبت انداز میں دیکھا گیا مگر بیشتر لوگ سوشل میڈیا پر اس پر سخت تنقید کر رہے ہیں بعض کا کہنا ہے کہ یہ "مقامی روایات کے خلاف" ہے جبکہ کچھ نے اسے "اسلامی اقدار کے برعکس" قرار دیا ہے۔
یہ اعتراضات بنیادی طور پر اس تصور سے جڑے ہوئے ہیں کہ خواتین کا عوامی مقامات پر کسی مردانہ کھیل میں حصہ لینا قبائلی اصولوں کے منافی ہے تاہم اس معاملہ کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ یہ خواتین کسی غیر اخلاقی سرگرمی میں ملوث نہیں تھیں بلکہ ایک تاریخی اور روایتی کھیل میں اپنی مہارت دکھا رہی تھیں جو صدیوں سے برصغیر کی ثقافت کا حصہ رہا ہے۔ ان خواتین پر تنقید سے پہلے ہمیں سب سے پہلے تو اسلامی تاریخ دیکھنی ہو گی۔ تاریخ اس بات کے گواہ ہے کہ خواتین نے ہمیشہ جسمانی سرگرمیوں اور کھیلوں میں حصہ لیا ہے۔ حضرت عائشہؓ کے بارے میں روایات ملتی ہیں کہ وہ دوڑ میں شریک ہوئی تھیں اور ابتدائی اسلامی دور میں خواتین کی تلوار بازی اور گھڑ سواری بھی عام تھی اس کے علاوہ دنیا کے مختلف مسلم ممالک میں اب بھی خواتین کھیلوں کے میدان میں نہ صرف شریک ہیں بلکہ نمایاں کامیابیاں بھی حاصل کر رہی ہیں۔
اگر تاریخِ قریب کے اوراق پلٹے جائیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ برصغیر میں خواتین نے گھڑ سواری، تیر اندازی اور نیزہ بازی جیسے کھیلوں میں حصہ لیا ہے جن میں رانی لکشمی بائی، بیگم حضرت محل، اور دیگر خواتین جنگجوؤں نے عملی طور پر یہ ثابت کیا کہ جسمانی مشقت اور کھیل صرف مردوں کے لیے مخصوص نہیں۔ میانوالی سمیت پاکستان کے کئی علاقوں میں خواتین کے لیے مواقع محدود ہونے کی ایک بڑی وجہ قدامت پسندانہ سوچ بھی ہے آج دنیا بھر میں خواتین کھیلوں کے شعبہ میں بڑی کامیابیاں حاصل کر رہی ہیں مگر ہمارے ہاں اب بھی ایسے تصورات موجود ہیں جو خواتین کو گھروں تک محدود رکھنے کی وکالت کرتے ہیں۔ یہ سوچ صرف کھیلوں تک محدود نہیں بلکہ خواتین کی تعلیم، ملازمت اور دیگر شعبوں میں ترقی کے مواقع بھی اسی قدامت پسند رویہ کی نذر ہو جاتے ہیں۔ معاشرتی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی روایات اور اقدار کا احترام کرتے ہوئے ان میں مثبت تبدیلیاں لے کر آئیں تاکہ خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ ترقی کر سکیں۔ بدلتے وقت کے ساتھ ہمیں دنیا کی دوسری قوموں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنا بہت ضروری ہے۔ اور ہمیں یہ جاننا ضروری ہے کہ کسی بھی قوم کی ترقی کا دار و مدار اس کے تمام افراد بشمول خواتین کی شمولیت پر ہوتا ہے۔
اگر ہم خواتین کو محض اس وجہ سے کھیلوں یا کسی بھی اور میدان میں آگے بڑھنے سے روکتے ہیں کہ یہ "روایات کے خلاف" ہے تو ہمیں یہ بھی سوچنا ہو گا کہ کیا روایات کو وقت کے ساتھ بدلنا چاہیے یا نہیں؟ نیزہ بازی میں خواتین کی شرکت کوئی غیر اخلاقی یا غیر اسلامی قدم نہیں بلکہ ایک مثبت پیش رفت ہے جو خواتین کو مزید با اختیار بنانے کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔ اگر ہم اپنی سوچ میں وسعت پیدا کریں اور خواتین کو ان کے حقوق دینے کے لیے تیار ہوں تو ضلع میانوالی اور دیگر ایسے علاقوں میں ترقی کی نئی راہیں کھل سکتی ہیں جہاں خواتین مردوں سے بہت پیچھے ہیں۔ لہٰذا بجائے اس کے کہ ہم خواتین کی شرکت پر تنقید کریں ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ہم انہیں مزید مواقع کیسے فراہم کر سکتے ہیں تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکیں اور معاشرہ کی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکیں۔
واپس کریں