دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
' نظام انصاف اور قہقہے '
طاہر سواتی
طاہر سواتی
آج اسلام آباد ہائیکورٹ میں مریم نواز کے کیس کی سماعت تھی۔ سماعت کے دوران جسٹس عامر فاروق نے نیب پراسیکیوٹر سے کہا کہ
" نیب پہلے یہ ثابت کرے کہ فلیٹس نواز شریف نے خریدے اگر یہ ثابت نہیں کرتا تو مریم نواز کا سہولتکار اعانت کا کردار کہاں سے آئے گا۔ قتل کے کیس میں مرکزی ملزم پر الزام ثابت نہ ہو تو شریک ملزم پر الزام کیسے ثابت ہوگا، آپ ‏نواز شریف کاکمپنیوں کے ساتھ تعلق ثابت کریں،نواز شریف کا فلیٹس کی خریداری کےلیےرقم ادا کرنا ثابت کریں اور پھر مریم نواز کا فلیٹس سے تعلق ثابت کریں،اس سے زیادہ آسان زبان میں نیب سےسوال نہیں کرسکتے "
مزید فرمایا کہ
" نواز شریف کی اپیل میرٹ پر خارج نہیں ہوئی"
یہی نظام انصاف تھآ۔ یہی مائی لارڈز تھے۔ یہی جسٹس عامر فاروق اور اختر کیانی کا دو رکنی بینچ تھا جس نے نے 4 دسمبر 2017 کو نواز شریف کی ریفرنس یکجا کرنے کی درخواست مسترد کر دی تھی،
کیونکہ یہ مہربانوں کی منشاء تھی۔ مہربانوں کو معلوم تھا'کہ ایک نہ ایک دن نواز شریف ان الزامات سے بری ہوں جائیں گے اس لیے انہوں نے تین مختلف قسم کے ریفرنس دائر کردیے کہ اگر ایک کیس میں بریت ہو تو دوسرے میں گرفتاری ۔
اس طرح آٹھ دس سال گزر جائیں گے کیونکہ برسوں کی محنت کے بعد یہ سالے دس سالہ پراجیکٹ لائے تھے۔ نواز شریف کی مکمل بریت کی صورت میں سالوں کی محنت ضائع ہونے کا خدشہ تھا۔
اسی طرح یہی عدالت عالیہ تھی۔ یہی فاروق اور کیانی کا دو رکنی بینچ تھا جس نے 2019 میں میاں نواز شریف کی میڈیکل گراؤنڈ پر درخواست ضمانت مسترد کردی تھی۔
اس موقع پر بنچ کے رکن جسٹس محسنِ اختر کیانی نے کہا تھا
" ‏ملزم باہر بیٹھ کر ہنس رہا ہوگا کہ کیسے پورے سسٹم کو شکست دے کر گیا، شرم کا مقام ہے"
نواز شریف کا تو معلوم نہیں لیکن آج کی کاروائی دیکھ کر ہر باشعور انسان اس ملک کے نظام انصاف پر قہقہے لگا رہا ہے۔
واپس کریں