دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
بغاوت ۔طاہر سواتی
طاہر سواتی
طاہر سواتی
میں بس اسٹاپ پر کھڑا ہوں، بس کی آنے میں ابھی دیر ہے، سامنے ایک تاریخی چرچ ہے ۔ابھی بہت سویرا ہے۔ ہر طرف وحشت اور سناٹا ہے۔ اتنی تاریکی میں ایک لڑکی آکر میرے پاس کھڑی ہو گئی ، اس کو کسی چیز کا خوف نہیں۔میں تاریخی چرچ کے بارے میں سوچ رہاہوں جو کئی سو سال پرانا ہے ،کبھی یہاں بھی عبادت کے لئے گھنٹیاں بجتی تھیں ۔ پادری لوگوں کے جنت دوزخ کے فیصلے کیا کرتے تھے۔ آج مکمل سکوت ہے۔
شاید سنڈے دعا کے لئے بھی ترس رہا ہو۔ چرچ کے آس پاس بوڑھے تناور درخت ہیں ۔سنا تھا ان پر جنات کا بسیرا ہوتاہے۔ جتنا پرانا درخت ہوگا اتنے اس کے مکین طویل لعمر ہوں گے ۔ ہزار سال یا شائید اس بھی زیادہ۔
دل میں خیال آیا کہ کوئی عمل سیکھ لوں تاکہ ان تاریخی جنات سے باتیں کرسکوں ، ان سے چرچ اور بادشاہ کے عروج وُزوال کی داستانیں سن سکوں ۔
اتنے میں چرچ کے مناروں سے قہقہے بلند ہوئے ۔
“ جنات تجھے کیا تاریخ بتائیں گے،ہم سے پوچھو، کبھی اس سرزمینُ پر بادشاہ اور چرچ کا راج تھا۔
چرچ بادشاہ اور بادشاہ چرچ کے مفادات کا محافظ تھا۔
چرچ کی نافرمانی کفر اور بادشاہ کے حکم سے انکار غداری تصور کیجاتی تھی۔جو شے ہمارے مفادات میں رکاوٹ بنتی ہمُ اسے کتاب مقدس سے حرام ثابت کرتے۔ صدیوں سے جاری اس کھیل میں لاچار عوام پس رہی تھی۔لیکن چرچ اور بادشاہ کے خلاف بولنے کی کسی میں ہمت نہیں تھی۔ وقت گزرتا گیا اور پھر اکسفورڈ اور کیمرج جیسے اداروں نے باغی ذہن پیدا کئے۔ جنہوں نے عوام کو اپنے حقوق کا شعور دیا اور یوں جبر کے ہاتھوں مجبور اور لاچار عوام نے دونوں سے بغاوت کردی۔ آج بادشاہ اور چرچ دونوں قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔اب بادشاہ کے پاس اپنے محل کے چلانےاور چرچ کے پاس بجلی کے بل ادا کرنے کے پیسے نہیں۔ اب ہم چیریٹی کے نام پر عوام سے بھیک مانگتے ہیں کبھی عوامُ ہر معاملے میں ہماری محتاج تھی”
میناروں نے ایکُ بار پھر زوردار قہقہہ لگایا اور گویا ہوئے۔
“ زیادہ پریشان نہ ہوں بہت جلد آپ کے مدارس اور مساجد بھی اس طرح ویران و پریشان نظر آئیں گے”
میں نے کہا،
”ناممکن، ایسا سوچنا بھی مت ، ہمارا ملک اللہ کے نام پر بنا ہے اور یہ تاقیامت قائم و دائم رہیگا، جب تک ہمارے محب وطن جرنیل اور مذہب پرست علمائے کرامُ زندہ ہیں ایسی کوئی سازش کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتی ، یہودی و نصاریٰ جتنا مرضی سازشیں کرلیں ہم اپنے دین کی حرمت اور وطنُ کے ناموس پر آنچ نہیںُ آنے دیں گے، دیکھیں کل ایک خاتون نے غلطی سےعربی رسم الخط والی قمیض پہن لی تھی اگرچہ مذہب کی توہین تو نہیں ہوئی لیکن پھر بھی خاتونُ نے برملا معافی مانگی، اور آئندہ اس قسم کی مشتبہ حرکت سے اجتناب کا وعدہ بھی کیا”
میری یہ جذباتی تقریر جاری تھی کہ اتنے میں قریب کھڑی خاتون کی آواز آئی کہ بس آگئی آپ نے جانا نہیں۔
میں بس میں سوار ہونے لگا اور پیچھے چرچ کے میناروں میں ایک گونج تھی۔
“جرنیلوں کی بادشاہت ، ملاؤں کی چودھراہٹ “
واپس کریں