دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مائی لارڈ اور مائی گارڈ
طاہر سواتی
طاہر سواتی
چھ مائی لارڈز نے ایک خط لکھا ہےکہ مائی گارڈز ہمیں تنگ کرتے ہیں اور انصاف کی فراہمی میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ اس لو لیٹر کا پہلا مطلب تو یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ یہ سارے مائی لارڈز یکم رمضان المبارک کو کسی اور سیارے سے زمین پر اتارے گئے ہیں اور آتے ہی مملکت خداداد میں ان کی ڈیوٹی لگا دی گئی جہاں یہ عدل و انصاف کی نہریں جاری کرنا چاہتے ہیں لیکن بد قسمتی سے دروازے پر کھڑا چوکیدار انہیں ہلنے نہیں دے رہا۔
دوسرا امکان یہ ہے کہ اسلام کے نام پر بننے والے اس قلعے میں گزشتہ ۷۷ سالوں سے عدل فاروقی کا دور دورہ تھا ، پھر اچانک ایک سازش کے تحت ریاست مدینہ کا والی معزول ہوا جس کے بعد آئین اور قانون ردی کے ٹوکرے میں پھینک کر مائی گارڈ نے ان پر بندوقیں تان لی ہیں ۔
میرے دوست حاجی شاہ گل کا خیال ہے کہ مائی گارڈز واقعی غیر جانبدار ہوگئے ہیں ورنہ آئین کی بجائے نظریہ ضرورت کے پیروکار اس قسم کے آوارہ خطوط لکھنے کی ہمت کبھی نہ کرتے،
اور مجھے وہ پرانا لطیفہ یاد آرہا ہے جس میں بادشاہ نے عوام الناس کو جمع کرکے حکم دیا کہ بیوی سے ڈرنے والے ایک قطار میں اور نہ ڈرنے والے دوسری قطار میں کھڑے ہوجائیں اورپھر بیوی سے نہ ڈرنے والوں کی قطار میں تنہا شخص سے جب بادشاہ نے راز جاننے کی کوشش کی تو اس نے بتایا کہ یہ تو بیوی کا حکم تھا کہ اسی قطار میں کھڑے ہو جاؤ ورنہ تمہاری خیر نہیں۔
یہاں اسٹبشلمنٹ کے فیضی گروپ کا حکم نہ ہوتا تو یہ جج اور اس قسم کے لو لیٹر ۔
یہ ایجنسیوں کا دباؤ ہی تھا کہ انہیں فوجی تنصیبات پر حملہ آوروں کے لیڈر کو “ گڈ ٹو سی یو “ کہہ کر استقبال کرناپڑا اور انہیں ۳۵ مقدمات میں ضمانت دینی پڑی۔
یہ دباؤ نہیں تو اور کیا تھا کہ ۹ مئی کے ایک اور کردا
یا سمین راشد نے ضمانت کے لئے اپلائی کیا تو انہوں نے پورا کیس ہی ختم کردیا۔
یہ اتنے جمہوریت پسند جج ہیں کہ انہی کے ساتھی شوکت صدیق نے جب قسم اٹھاکر فیض کی مداخلت کی تصدیق کی تو انہیں نے فیض کے خلاف ایکشن لینے کی بجائے اپنے ساتھی کو ہی دھکے دیکر نکال دیا،
اور پھر اس کا سماجی بائیکاٹ کیا تاکہ فیض اور باجوہ ناراض نہ ہوں ۔
یہ وہی لارڈز ہیں جنہوں پانامہ میں ایجنسیوں کے حکم پر نواز شریف کو نکالا اور پھر اسی اسلام آباد ہائیکورٹ میں ضمانت کی درخواست پر نواز شریف کے طرز عمل کر شرمناک قرار دیا۔
اس لئے آج اگر تبدیلی کے نشے سے چور جنرل حسن اختر کیانی کا بھائی اور ۲۰۱۴ کے دھرنے میں بطور صدر اسلام آباد ہائی کورٹ بار عمران نیازی کو سپورٹ کرنے والا جسٹس محسن کیانی شور مچائے کہ فوج اور ایجنسیاں عدالتی نظام میںُ مداخلت کرتی ہیں تو آپ نےثبوت مانگنے کی بجائے صرف یہ انتظار کرناہے کہ کل کا سورج کہیں مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع تو نہیں ہورہا۔
مطلب “ قیامت کنے وجے ہے”
واپس کریں