دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پختون ، شعور اور باچاخان
طاہر سواتی
طاہر سواتی
کہاجاتاہےکہ خیبرپختونخوا کی عوام نے تیسری مرتبہ تحریک انصاف کوُاس لئے ووٹ دیا کہ عمران خان نے انہیں شعور دیاہے، یہ وہ شعورہے جس میں ان پڑھ اور پڑھے لکھے ڈاکٹرز،اینجنئیرز حتی کہ پیُ ایچ ڈی تک ایک جیسی گالیاں دیتےہیں اور ٹک ٹاک و فیس بک پر سلطان راہی اور بدرمنیر جیسوں کی بھڑکوں پر واہ واہ کرتے ہیں۔پختون ایک بہادر اور بے لوث لیکن جذباتی قوم ہے۔اسی جذباتیت کی وجہ سے کبھی انہیں ۱۹۴۸کے جہاد کشمیر پر روانہ کیا جاتاہے تو کبھی جہاد افغانستان کے نام پرانہیں بندوق پکڑائی جاتی ہےپھر دھشتگردی کے خلاف جنگ اسی سرزمین سے لڑی جاتی ہےاور آخر میں انہیں تبدیلی کے نشے پر لگاکر اسے شعور کا نامُ دیا جاتا ہے۔
کوئی صدی قبل اس خطے میں ایک لیڈر نے جنم لیا جسے دنیا باچا خان کے نام سے جانتی ہے۔جس نے اپنی قوم میں تین چیزیں بیدار کرنے کے لئے زندگی وقف کی۔
پہلی چیز تھی آزادی کے لئے پرامن جدوجہد کیونکہُ اس وقت برطانوی یہاں قابض تھے۔ اس کی خاطر اس نے ۱۴ سال انگریزوں اور ۲۵ سال تک انگریز باقیات کی جیلیں کاٹیں،
لیکن ریاستی پروپیگنڈے کا کمال دیکھیں کہ جسکے بارے میںُ ینیلسن منڈیلا کہا کرتےتھے کہ انھوں نے حریت کا سبق باچا خان سے سیکھا ، وہ پختونوں کے نزدیک غدار ہےاوردوسری جانب ایک نوسر باز نے صرف بھڑک ماری کہ “ ہم کوئی غلام ہیں “ وہ ان کا ہیرو اورحریت لیڈر ہے۔
باچا خان کے نزدیک دوسری اہم شے تعلیم تھی تاکہ اس کے قوم کے اندر شعور بیدار ہو۔
اس غرض سے ۱۹۲۲ میں انہوں نے اپنے آبائی گاؤں چارسدہ میں آزاد مدرسہ سکول کے نام ایک اسکول بنایا جس میں دینی اور دنیاوی تعلیم کےساتھ ساتھ فنی مہارت سکھانے کا بھی انتظام تھا، سب سے پہلے اپنے لاڈلے بیٹوں غنی خان اور ولیُ خان کو اس میں داخل کروایا،بعد میں پورے صوبہ سرحد میں ان سکولوں کی تعداد ایک سو اڑتیس تک پہنچ گئی تھی،
1923ء میں آزاد اسلامیہ سکولوں کا الحاق جامعہ ملیہ اسلامیہ سے کر دیا گیا‘ جس کے چانسلر حکیم اجمل خان اور وائس چانسلر محمد علی جوہر تھے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ، جس کا سنگِ بنیاد دارالعلوم دیوبند کے شیخ الہند مولانا محمودالحسن نے رکھا تھا، فرنگیوں کے خلاف جدوجہد میں حریت پسندوں کا مرکزِ نگاہ تھا۔
تاہم قیام کے کچھ عرصے بعد انگریز وں نے پابندی لگا کر تمام سکولوں کو بند کردیا کہُ اس وقت گورے حکمران غلاموں کو اس قسم کی تعلیم اور شعور دینے کے حق میں نہیں تھے۔
تقریبا ایک صدی بعد جب اس کے پیروکار خیبرپختونخوا میں برسر اقتدار آئے تو انہوں نے 10یونیورسٹیاں، 74 گرلز کالجز بنائے۔
لیکن پختونوں کے نزدیک یہ کوئی قومی خدمت نہیں۔ اصل خدمت تو جاود ٹونے پر یقین کرنے والے ایک ٹک ٹاکر نے کی۔
تیسری چیز تھی فلسفہ عدم تشدد !
کیونکہ تاریخی طور پر پختون ایک جنگجو قوم ہے جن کا زیادہ تر وقت دوسرے اقوام یا اپنے درمیان جنگ و جدل میں گزرا ہے۔ آج بھی قبائلی جھگڑے اور خاندانی دشمنیاں عروج پر ہیں۔ ایک ایسی قوم میں باچاخان عدم تشدد کا پرچار کرکے انہیںُ پرامن سیاسی جدجہد کی جانب مائلُ کرنا چاہتے تھے۔
یہ کامُ کسی معجزے سے کم نہ تھا۔ لیکن تاریخ نے پھر عجیب مناظر دیکھے ۔
سنہ 1938 میں بابڑہ کے مقام پر ایک بڑے مجمعے سے خطاب کرتے ہوئے گاندھی نے کہا تھا۔
“ہندوستان میں عدم تشدد کا فلسفہ چلانا کوئی مشکل کام نہیں کیونکہ وہاں کے لوگ ویسے بھی تشدد سے گھبراتے تھے لیکن وہ یہ معجزہ دیکھنے چارسدہ آئے ہیں تاکہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں کہ باچا خان نے اس قوم یعنی پختون کو کیسے عدم تشدد پر تیار کیا، جو اسلحے سے بھی لیس تھے، جذباتی بھی تھے اور اُن کو روکا جانا بھی آسان نہیں تھا”
دس سال بعد 1948 کو اسی باڑہ کے مقام پر قیوم خان کے حکم پر سرکاری اہلکار خدائی اہلکاروں کے پرامن جلوس پر فائرنگ کررہے تھے۔ سڑک پر ۶۰۰ لاشیں تڑپ رہی تھیں لیکنُ باچاخان کے پیروکار ہتھیار اٹھانے کی بجائے عدم تشدد کے فلسفے پر قائم رہے۔
ان لوگوں کا قصور اپنے منتخب حکومت کے غیر آئینی خاتمے پر ایکٗ پر امن احتجاج تھا۔
یہ سب کچھ قائداعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کے دور حکومت میں ہوا۔
ولی خان اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ خدائی خدمت گاروں کو دُوہری مشکلات کا سامنا تھا، وہ پختون تھے، بدلہ لینا اُن کی سرشت میں شامل تھا اور صوبہ سرحد میں اسلحہ ملنا کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔بس مسئلہ ایک ہی تھا کہ اگر وہ تشدد کی راہ پر گامزن ہوتے تو اپنے رہبر باچا خان کے عدم تشدد کے فلسفے کی خلاف ورزی کے مرتکب ٹھہرتے مگر دوسری جانب اپنی بے توقیری بھی انھیں اشتعال دلا رہی تھی۔
ایسے ہی خدائی خدمت گاروں میں کوہاٹ کی تحصیل کرک کےعبدالغفار تھے۔ انھیں برہنہ کر کے دیگر کارکنوں کے ہمراہ بازاروں میں گھمایا گیا تھا تاکہ وہ دوبارہ خدائی خدمت گار تحریک کا نام نہ لیں۔
اس بیعزتی سے دلبرداشتہ ہوکر اس نے خودکشی کو ترجیح دی لیکنُ باچاخان کے فلسفہ عدم تشدد پر آنچ نہ دیا۔
مرنے سے قبل باچاخان کے نامُ لکھا۔
“آپ کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ عدم تشدد پر کاربند رہوں گا اور جو کچھ بھی ہو یہ فلسفہ نہیں چھوڑوں گا۔ اس دوران میں نے کوڑے کھائے، جائیداد ضبط ہوئی لیکن قیوم خان کے پارٹی کارکن پولیس کے ساتھ ہمارے گھروں میں آتے ہیں اور ہماری ہتک کرتے ہیں۔میرا بھی جی چاہتا تھا کہ قیوم خان سمیت سب کو قتل کروں لیکن آپ کا فلسفہ عدم تشدد میرے آڑے آتا ہے۔ اس لیے اللہ سے خودکشی کے حرام ہونے پر اور آپ سے اپنی برداشت ختم ہونے پر ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتا ہوں کیونکہ اب یہ سب برداشت نہیں ہوتا”
اور یہ باچاخان کے نظریہ عدم تشدد کا کمال تھا کہ ۲۰۱۸ کے انتخابیُ مہم کے دوران جب بلور شہید کے بیٹے ہارون بلور کے جلسے پر دھشت گردوں نے حملہ کیا جس میں ہارون بلور شہید ہوگئے تو غم سے نڈھال کارکن انتہائی جذباتی تھے۔لیکن اس کا جوان سال بیٹا دانیال اس ایمبولینس کے چھت پر بیٹھ کر کارکنوں کو صبر کی تلقین کررہا تھا جس کے اندر اس کے شہید باپ کی لاش خون میں لت پت پڑی تھی۔
دوسری جانب اسی سرزمین پر اسٹبلشمنٹ کا لاڈلا گرفتار ہوا تو اس کے زومیبز پیروکاروں نے جی ایچ کیو اور کور کمانڈر ہاؤس سے لیکر ریڈیو پاکستان تک ہر سرکاری عمارت کو آگ لگا دی ۔ یہ وہ شعور تھا جو جنرل غفور اور جنرل عاصم باجوہ نے ففتھ جرنیشن وار کے نام پر پختون قوم کو دیا ۔
آج بھی ہمارے محب وطن جرنیلوں کے نزدیک عدم تشدد کا داعی باچاخان اور اس کے پیروکار غدار ہیں ۔
جبکہُ دوسری جانب تشدد اور نفرت کا پرچار کرنے والا عمران نیازی محب وطن اور لاڈلاہے۔
اس کا مظاہرہ ساری قوم نے ۲۰۲۴ کے ایلکشن میں دیکھ لیا۔
واپس کریں