دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
“منصفوں کی سیاست “
طاہر سواتی
طاہر سواتی
اسلام آباد ہائیکورٹ نے غریب کو سستی روٹی دینے کا حکم نامہ معطل کردیا۔کیا انصاف کے ایوانوں میں بیٹھ کر سیاست کرنے والوں کی یہ پہلی عمرانداری ہے ؟ ریکوڈک پر افتخار چودھری نے دھمال ڈالا۔معدنیات سے مالا مال ہونے کی بجائے عالمی عدالت سے چھ ارب کا جرمانہ ہوا۔سات سال کے دوران مقدمہ بازی پر پانچ ارب، 33 کروڑ روپے کا ٹیکہ اس کے علاوہ تھا۔
اس کے بعد ثاقب نثار نوازشریف کو حکومت اور سیاست سے تاحیات نااہل کرنے کے بعد ڈیم کی تعمیر لگ گئے بارہ ارب کا عطیہ ہڑپ کرکے اعلان کیا کہ ڈیم چندوں سے نہیں بنتی ہم بس ذرا شعور بیدار کررہے تھے۔
مئی ۲۰۱۸ کو اسی ثاقب نثار نے موبائل فون بیلنس پر ود ہولڈنگ اور سیلز ٹیکس کے معاملے پر ازخود نوٹس لیا،حکومت کو صرف دو دن کی مہلت دی اور جون 2018 میں سپریم کورٹ نے موبائل فون کارڈز پر تمام ٹیکس غیر قانونی قرار دیکر معطل کردیے ، گلگت سے بولان تک سوشل اور ایلکٹرانکس میڈیاپر واہ واہ ہو گئی،
صرف ود ہولڈنگ ٹیکس کے مد میں حکومت کو سالانہ ۱۲۰ ارب روپے کا ٹیکہ لگا۔جس میں ۷۰ ارب صوبوں اور ۵۰ ارب روپے وفاق کو ملتے تھے۔
آگے جاکر جب تبدیلی کا سوج طلوع ہوا اور صادق آمین لاڈلے کی حکومت آئی تو پھر ان میں ایمانداری کی جگہ عمرانداری بیدار ہوگئی،
اپریل ۲۰۱۹ کو آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل 3 رکنی نے تمام ٹیکس بحال کردئیے ۔ جسٹس کھوسہ نے اپنے مختصر فیصلے میں لکھا سپریم کورٹ ٹیکس معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی کیونکہ یہ ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔
سماعت کے دوران جب فائز عیسی نے سوال کیا کہ وہ کیا وجوہات تھیں جس کی بنا پر یہ ٹیکس معطل کردئیے گئے تھے تو کھوسہ نے کہا کہ ہمارے سامنے وہ کیس نہیں ہے ۔
قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ نے جس نوٹ پر ازخود نوٹس لیا اس میں متعلقہ حکام سے وضاحت طلب کی گئی، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اب وہ مرحلہ گزر چکا ہے،اب ہمارے لیے مقدمے کے آغاز کی طرف واپس جانا ناممکن ہے۔
‏‎جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ہم نظرثانی کیس سن رہے ہیں، جو احکامات جاری کر دیے گئے انہیں چھوڑ دیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آخری مرحلے تک ہمارے پاس یہ آپشن موجود ہے کہ یہ کہہ دیں مقدمہ مفاد عامہ کا نہیں۔
جب بیگمات ، ساسومات اور دخترات کا کرش وزیر اعظم بنا تو پھر حکومت سے متعلق کوئی بھی کیس مفاد عامہ کا نہیں رہا۔ہر کیس خواہشات خاص والا بن گیا۔
انہی عمرانداروں نے پشاور بی آر ٹی پر نیب کو تحقیات سے روک دیا تھا جس کی لاگت راولپنڈی اسلام آباد میٹرو سے تیں گنا زیادہ تھی۔
دوسری جانب لاہور میں اورنج لائن منصوبے کا ۷۵ فیصد کام مکمل تھا جب انہی عمرانداروں نے اس پر اسٹے دے دیا، شہباز شریف اپنے اس خواب کی تعبیر دیکھے بغیر گھر چلے گئے۔
جب لاڈلا آیا تو اسی اعجاز حسن نے فیصلہ دیا کہ یہ مفاد عامہ کا منصوبہ ہے اس کوبروقت مکمل کیا جائے۔
۲۰ ماہ کے اس تاخیر سے منصوبے کی لاگت میں اربوں روپے کا اضافہ ہوا۔ اور لآڈلے کے وسیم اکرم بزدار نے افتتاح کیا ، عمرانداروں کا اصل مقصد ہی یہی تھا۔
لاہور کڈنی اور لیور ٹراسپلانٹ ہسپتال کا مرثیہ سنانے کی تو ہمت ہی نہیں ۔
کہا تک سناؤں کہاں تک سنوگے۔
دنیا میں وہ قومیں ترقی کرتی ہیں جن کے جج ایماندار ہوں اور وہ انصاف پر مبنی فیصلے کرتے ہوں۔
اور جن کے منصف عمراندار بن کر سیاست کرنے لگیں ان کا حال ہمارے جیسے ہوتا ہے ۔
واپس کریں