دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
' آفتوں کا موسم اور ہمارے فاقہ مست "
طاہر سواتی
طاہر سواتی
گزشتہ تین سالوں میں دنیا دو بڑے بحرانوں سے گزر رہی ہے۔ پہلے چینی کی برکت سےکرونا وبا آیا جس نے دنیا بھر کی معیشتوں کو ہلا کر رکھ دیا۔
سیاحت اور ہوابازی کی صنعت تو بالکل رک گئی۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ابھی تک اس وبا سے 65 لاکھ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ اصل تعداد اس سے تین گنا زیادہ ہے۔
اب اس کے آفت کے آفٹر شاکس جاری تھے کہ ایک اور عالمی ڈکٹیٹر پوٹن کی مہم جوئی کا شوق بیدار ہؤا اور اس نے ایک آزاد اور خودمختار ملک یوکرین پر حملہ کردیا۔
ہم نے اس وقت بھی گزارش کی تھی کہ اس جنگ پر بغلیں بجانے کی ضرورت نہیں، ہم جیسے مانگ کر عیاشی کرنے والوں کے لیے اس جنگ کے تیل کا جھٹکا ہی کافی ہے۔
عالمی صورتحال یہ ہے کہ اس وقت برطانیہ میں مہنگائی 18 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ جرمنی یورپ کی سب سے بڑی معیشت ہے۔ کرونا وبا میں اسے 330 ارب یورو اور یوکرین کی جنگ میں کم از کم 100 ارب کا نقصان اٹھانا پڑا۔
سنگاپور کی جی ڈی پی جو 2021 میں 7.6 فیصد تھی اب 2023 میں 2.6 فیصد تک گر جائے گی۔
جنوبی ایشیا میں 45 ارب ڈالرز کا زرمبادلہ رکھنے والا بنگلہ دیش بھی آئی ایم ایف کے پاس جارہا ہے اور ایندھن کی قیمتیں بڑھنے سے حکومت نے بجلی کا استعمال کم کرنے کے لیے مختلف اقدامات کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ملک میں اب اسکول ہفتے میں ایک اضافی دن بند رہیں گے جب کہ سرکاری دفاتر اور بینکوں کے اوقات ایک گھنٹہ کم کیے جا رہے ہیں۔
اس وقت بنگلہ دیش میں پٹرول پاکستانی 277 روپے میں فی لیٹر دستیاب ہے۔ سری لنکا کے انجام نے ترقی پذیر ممالک کو گھبرانے پر مجبور کردیا ہے۔
اس دوران پاکستان ان دو خطرناک عالمی بحرانوں کے ساتھ ساتھ عمرانڈوز نامی مقامی بحران سے بھی گزر گیا۔
اگر عالمی سطح پر یہ دو بڑے بحران نہ بھی آتے تو پاکستان کی تباہی کے لئے یہی ایک وبا کافی تھی۔
ایسے میں یہ شہبازشریف جیسے دیوانے کا جگرا تھا کہ وہ اندورنی اور بیرونی بحرانوں میں گھری ہوئی کشتی کو بھنور میں جانے سے روکنے کے اس سیلاب میں کھود پڑے۔
اگرچہ ہم اس وقت بھی اس مہم جوئی کے خلاف تھے اور آج بھی اسے غلط سمجھتے ہیں۔
ہمارا موقف ہے کہ جس نے بویا وہی کاٹے تا کہ مزہ دوبالا ہو۔
پشتو میں اس قسم کے کام کے لیے ایک بے حیا قسم کا ضرب مثل مشہور ہے کہ
" جو غ غ کرے وہی دفنائے"
لیکن نہ عمران کو اپنے کئے کی سزا ملی اور نہ اس نااہل کو قوم پر مسلط کرنے والوں کو احساس ہؤا کہ ہم نے کیا بلنڈر کیا تھا۔ اسی وجہ سے ان کی فاقہ مستی جاری ہے اور وہ اب بھی نیازی کی پشت پناہی کررہے ہیں۔
ان افلاطونوں کا خیال ہے کہ اپنے اور لاڈلے کا گند ن لیگ کے کندھوں پر ڈال کر انہیں سیاسی میدان سے بیدخل کردیں گے اور لاڈلے کو ایک بار پھر ہیرو بنا کر قوم کے کندھوں پر سواری کے لیے تیار کر لیں گے۔
اور یوں میدان میں صرف ہم ہوں گے اور ہمارا لاڈلا ہوگا۔
" گلیاں ہو جان سنجیاں تے وچ مرزا یار پھرے"
لیکن یاد رکھیں!
قدرت بار بار غلطیوں کی تلافی کا موقع فراہم نہیں کرتی۔ اس ملک کے مفلوک الحال 22 کروڑ کیڑے مکوڑے تو گزشتہ 75 سالوں سے بھگت رہے ہیں اب شہبازشریف کی ناکامی آپ کی بربادی کا سندیسہ لائیگی۔
واپس کریں