دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
رحمتوں کے مہینے میںُ ظلمتوں کی بارش
طاہر سواتی
طاہر سواتی
رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ ہے،
سنا ہے اس میں رحمتیں برستی ہیں،
بیٹی بھی اللہ کی ایک رحمت ہے۔
اسی رحمتوں کی مہینے میں ٹوبہ ٹیک سنگھ کی ایک رحمت کو اپنے باپ اور بھائی نے ایک تاریک رات میں مارکر بڑی خاموشی سے قبر کی تاریکی میں اتاردیا ۔جس رمضان کی ایک رات ہزار مہینوں سے برتر ہے وہاں ماریہ پر یہ رات ہزار سالوں سے بد تر گزری ہوگی ۔
مبینہ طور پریہی باپ اور بھائی اس کے ساتھ زیادتی کرتے رہے کہ مردوں کے معاشرے میں اس کے جسم پر پہلا اور آخری حق کسی مرد کا ہی ہو سکتا ہے، مرد بے شک اسے نوچتے رہیں یااس کا گلہ گھونٹے رہیں ۔
رمضان المبارک کی بابرکت مہینے کی دوسری خبر ایک مولانا صاحب کا بچے پر جنسی تشدد ہے آخری خبر آنے تک اس معاملے میں علمائے کرام نے صلح صفائی کرکے غلط فہمی دور کر بھی لی ہے۔ چلیں شکر ہے ایک عالم دین کے خلاف کفار کی سازش تو ناکام بنادی گئی ۔
اکثر لوگوں کی نظر میں اس قسم کے واقعات کی وجہ ظلم کا یہ معاشرہ ہے جہاں انصاف نہیں ملتا،
ظلم کا معاشرہ تو بہت سیدھا ساہوتا ہے ظالم ظلم کرتا جو سب کو معلوم ہوتا ہے مظلوم ظلم سہتا اور آہیں بھرتا ہے اور آخر کار غیرت خداوندی جوش میں آکر ظلم کو مٹا دیتی ہے۔
ہم ایک منافق معاشرے میں جی رہے ہیں اور مناقینٗ کا انجام خدا کی نظر میں لادین اور کافروں سے بد تر ہے۔
اس ریاست کی بنیاد جھوٹ اور منافقت پر رکھی گئی ہے۔ یہاں جو حفاظت پر معمور ہیں وہی آپ کو لوٹ رہے ہیںُ اور ساتھ دعویٰ بھی کررہے ہیں کہ ہماری وجہ سے آپ سکون کی نیند سوتے ہیں ۔
یہاںُ انصاف دینے والے منصفیں ہی انصاف کا قتل عام کررہے ہیں ۔ ان کے گھروں میںٗ کم سن بچیوں پر تشدد ہوتا ہے ۔
دین مبین کے نام پر سب سے زیادہ لادینیت ہورہی ہے۔جس نے زندگی میں کبھی غلطی سے بھی سچ نہیں بولا اسے صادق وُ آمین کا لائسنس جاری کردیا جاتا ہے۔
جو درجنوں جنسی اسکینڈل میں ملوث ہوتا ہے وہی ریاست مدینہ بنانے کا دعویدار ہے اور ہر طبقے کے علما اس کی حمایت میں کمربستہ نظر آتے ہیں۔
یہاں میڈیا پر انسانی حقوق کے لکچرز دینے والے درجنوں ایاز امیر ہیںٗ جو خود تین نسلوں سے خواتین کے عصمت دری اور قتل میں ملوث رہے ہیں ۔ ملک کی بڑی جماعتیں ان کو ٹکٹ جاری کرتی ہیں اور لاکھوں لوگ اسے ووٹ دیتے ہیں ۔
یہاں معاشرے کے ظلم کا رونا رونے والے ایسے سینکڑوں حسن نثار ہیں جو خود اپنے بیوی اور بچوں پر جبر کے مرتکب ہوتے ہیں ۔
اور تو اور خواتین کے حقوق کے نام پر این جی اوز چلانے والی برگرز آنٹیوں کے گھروں میں معصوم لڑکیوں کا استحصال ہوتا ہے ۔
یہاں دارالامان کے نام پر مجبور لڑکیوں سے دھندا کروایا جاتا ہے۔
یہ پورا ملک ایک ٹوبہ ٹیک سنگھ بنا ہوا ہے۔
ہر طاقتور تقدس کا لبادہ پہن کر ظلم کررہا ہے۔
جنرل قومی سلامتی کے لبادے میں اپنی چودھراہٹ چلا رہے ہیں ،
جج توہین عدالت کا چوغا پہن کر انصاف کا جنازہ پڑھ رہے ہیں،
مولوی کے کرتوتوں پر تنقید اسلام کے خلاف سازش ہے،
ہر کسی کی پگڑی اچھالنا صحافتی ذمہ داری لیکن صحافیوں کے دؤغلہ پن پر بات کرنا آزادی اظہار رائے پر قد غن ہے۔
ان سب کے نزدیک ظلم صرف وہی ہے جو کشمیر اور فلسطین میں کافروں نے روا رکھا ہو یا کسی مخالف گروہ سے سرزد ہوا ہو۔
یا پھر قصور کے زینب جیسا واقعہ جس سے سیاسی فائدہ ممکن ہو ، پھر طاہر القادری جیسے گدھ کینیڈا اور سراج الحق جیسے پشاور سے لاش نوچنے کے لئے اڑ کر آجاتے ہیں ورنہ یہاں روزانہ کئی زینب مرتی ہیں ،
ہمارے خلاف یہود و نصاریٰ کو سازشیں کرنے کی کوئی ضرورت نہیں،
بلکہ وہ سارے ملک کر بھی ہمیں نہیں بچا سکیں گے۔
مناقفت کا یہ معاشرہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کی ماریہ کی طرح سسک سسک کر مرے گا اور ہم اپنے قاتلوں کو پانی پلاتے رہیںُ گے،
دنیا اس ظلم کی صرف ویڈیو بناکر تماشہ دیکھتی رہے گی ۔
واپس کریں