دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
“شعور یا شور“
طاہر سواتی
طاہر سواتی
ڈبلیو ایچ او کے مطابق سالانہ ۸۰ لاکھ سے زائدلوگ سیگریٹ نوشی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے ہیں ان میں سے ۱۳ لاکھ لوگ ایسے ہیں جو خود سیگریٹ نہیں پیتے بلکہ دوسروں کی وجہ سے متاثر ہوتے ہیں۔ اس لئے برطانیہ، امریکہ ، نیوزی لینڈ اور یورپ کے بیشتر ممالک میں عوامی مقامات ، پبلک ٹرانسپورٹ ، کام کرنے والی جگہوں پر سیگریٹ نوشی ممنوع ہے۔نیوزی لینڈ بہت جلد سیگریٹ نوشی پر مکمل پابندی لگانے والا ہے۔ برطانیہ ۲۰۴۰ تک بتدریج اپنے ملک کو سیگریٹ سے پاک کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ برطانیہ میں اپنے ذاتی گاڑی میں بھی سیگریٹ نوشی جرم ہے اگر آپ کے ساتھ ۱۸ سال سے کم کوئی بچہ بیٹھا ہو۔
اسی طرح آپ اپنے ذاتی دکان میں بیٹھ کر سیگریٹ نہیں پی سکتے۔
ان ممالک میں صحت عامہ کے اداروں کی سفارشات کی روشنی میں پارلیمان سیگریٹ نوشی کے خلاف وقتا فوقتا قانون سازی کرتی رہتی ہے۔
گزشتہ روز پاکستان کے سب سے بڑے قانون ساز ایوان میں سب بڑی اور اصول پسندی کے دعویدار جماعت کے سب سے بڑے لیڈر شیر افضل مروت نے ڈنکے کی چوٹ پر سیگریٹ نوشی کی بلکہ منع کرنے پر انکشاف کیا میں وہ کام ضرور کرتا ہوں جس سے منع کیا جائے۔
موصوف اس وقت نہ صرف قانون ساز ادارے قومی اسمبلی کے رکن ہیں بلکہ قانون کی تشریح کرنے والی سپریم کورٹ کی وکیل بھی ہیں اور اس سے قبل وہ پشاور میں سول جج بھی رہے ہیں۔ اس سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ مملکت خداداد میں آئینی اداروں پر کس قسم کے آئین شکن قابض ہیں۔
موصوف اپنے لیڈر عمران نیازی کے گدہ نشینی کے بھی متمنی ہیں جس کا دعویٰ تھا کہ یورپ اور امریکہ کو اس سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ وہاں اگر کوئی اس قسم حرکت کرلے تو نہ اس کی سیاست بچتی ہے اور نہ ہی وکالت۔
اس قسم کی حرکتوں کے باجود ان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے قوم کو شعور دیا۔
یہ شعور نہیں شور ہے۔
خود قانونی شکنی کرکے دوسروں کو آئین و قانون کابھاشن دینے کا شور ۔
خود ہر قسم کی چوری ڈکیتی کرکے دوسروں کو کرپٹ اور چور چور پکارنے کا شور ۔
خود گالم گلوچ اور بد تہذیبی کی ساری حدیں پار کرکے دوسروں کو اخلاقیات کا درس دینے کاشور۔
اور اسی شور میں قوم کا اجتماعی شعور دفن ہوچکا ہے۔
واپس کریں