دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
' جنگ اور کھیل' ۔طاہر سواتی
طاہر سواتی
طاہر سواتی
مارچ 2011 کی کہانی ہے۔ میں اپنے والد مرحوم ( اللہ تعالیٰ جنت نصیب فرمائے آمین) کے ساتھ بچہ پارٹی کو لیکر شہر گیا تاکہ ان کے لیے اسکول یونیفارم اور جوتے وغیرہ خرید سکوں۔ کیونکہ اپریل میں نئی کلاسیں شروع ہورہی تھیں۔ہمارے شہر میں فروٹ سبزی اور کپڑے کا زیادہ تر کاروبار افغانیوں کے پاس ہے۔سویرے سویرے زیادہ تر دکانیں بند تھیں آخر والد صاحب کے ایک جاننے والے افغانی مل گئے جو دکان کا آدھا شٹر بند کرکے جانے والے تھے۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ آج انڈیا اور پاکستان کا میچ ہے اور زیادہ تر لوگ دکانیں بند کرکے میچ دیکھنے گھروں کو چلے گئے ہیں۔
اس دکان والے نے تو یہ بھی بتایا کہ پاکستان کی جیت کی خاطر اس نے آج خصوصی روزہ بھی رکھا ہے۔
روزے والی بات سن کر مجھے ہنسی آئی ۔ میں نے کہا ھمارے ملک کا میچ ہے مجھے معلوم بھی نہیں اور آپ نے روزہ بھی رکھ لیا ہے۔
یہ تو تھی نمک حرام افغانیوں کی پاکستانی کرکٹ ٹیم سے والہانہ محبت ۔
کل کیا ہؤا وہ بھی سب نے دیکھ لیا۔کیوں ہؤا اس پر کوئی بات نہیں کریگا۔
جو کچھ افغان کھلاڑیوں اور تماشائیوں نے کیا انتہائی بچگانہ فعل تھا کیونکہ افغانی ابھی کرکٹ کی دنیا میں نومولود ہیں۔
لیکن اس کے رد عمل میں جو کچھ ہمارے باشعور اور میچور دوست کررہے ہیں وہ کیا ہے؟
فرض کریں انگلینڈ کے لارڈ کرکٹ اسٹیڈیم میں پاکستان اور انگلینڈ کے ٹیموں کا مقابلہ ہو۔ پاکستانی کھلاڑی افغانیوں کی طرح برطانوی ٹیم کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آئے اور برطانوی نژاد پاکستانی پاکستانی ٹیم کو سپورٹ کریں ( جو وہ اکثر کرتے رہتے ہیں)
اب اگر اس کے ردعمل میں برطانوی شہری کہیں کہ ان نمک حراموں کو یہاں سے نکال دو۔ ہم نے ان کو شہریت سمیت سب کچھ دیا لیکن یہ پھر بھی سانپ کی طرح ڈستے رہتے ہیں۔اس قسم کی نسل پرستانہ ردعمل پھر ہمیں کیسے لگے گا۔
افغانوں کو نہ ہم نے شہریت دی نہ کوئی اور سہولت الٹا جو کچھ راشن دانہ پانی یا گولہ بارود ان کے نام پر آتا رہا ہم اپنا حصّہ وصول کرکے انہیں دیتے رہے لیکن اب ہمارا مطالبہ ہے کہ یہ پاک افغان میچ میں پاکستان کی حمایت کریں یا مخلافت تو ادب کے دائرے میں رہ کر کیا کریں ورنہ نمک حرام ہوں گے۔
وہ اگر کم ظرف بن گئے تو ہمارا یہ رویہ ہمیں کس ہمالیہ پر لیکر جا رہا ہے۔
ایک تھیوری یہ پیش کی جارہی ہے کہ امارات میں موجود یہ افغانی اشرف غنی کے لوگ ہیں اس لئے پاکستان سے نفرت کرتے ہیں ورنہ امارت اسلامی والے ایسے نہیں ۔ ہم چونکہ پاکستانی میڈیا کے علاؤہ کچھ دیکھتے نہیں اس لیے سوچ بھی کنویں کی مینڈک کی طرح محدود ہے۔ ان کے پگڑیوں والے وزراء اور سرکاری اہلکار اپنی ٹیم کو جن نیک تمناؤں کے ساتھ رخصت کررہے تھے اس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا'
لیکن فرض کریں یہ اشرف غنی کے ہی ہم خیال پاکستان مخلاف تھے تو ذرا سوچیں۔ آپ ہزار پانچ سو ڈالرز تنخواہ لے رہے ہوں اور اچانک آپ کی محبوب لیڈر کی حکومت کو کوئی سر عام سازش کے ذریعے ختم کرے اور پھر دل جلانے کے لئے کابل کی سرینہ میں گرم گرم چائے کی چسکیاں لے تو آپ کے دل پر کیا گزرتی ہوگی۔
یہاں تو ایک امریکی سازش کی جھوٹی کہانی پر قوم یوتھ والے اتنے جذباتی ہوئے کہ پاکستانی پاسپورٹ اور جھنڈے تک جلا دئیے۔ لیکن ان سے سب کچھ چھن جانے کی بعد بھی صبر و تحمل کا مطالبہ ہورہا ہے۔
اس کے باوجود افغانیوں کی کل والی ردعمل پر سو بار لعنت لیکن ذرا اپنے گریبان میں جھانکیں۔
ایک روشن خیال سوشل میڈیا ایکٹوسٹ دوست نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ رنجیت سنگھ سے پہلے یہ پنجاب میں فتح کرنے اور اس کے بعد پالش کرنے آتے ہیں۔ ہمارے اس باشعور دوست کو یہ تک معلوم نہیں کہ پاکستان کے گلی کوچوں میں جوتے پالش کرنے والے افغانی نہیں بلکہ اس کا تعلق افغانستان کو شکست دینے والے نسیم شاہ کے علاقے سے ہے۔
ضیاء الحق نے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے قومی کھیل ہاکی کو کھڈے لائن لگا کر کرکٹ کو پروموٹ کیا تاکہ قوم مصروف رہے۔ اس جنون نے عمران نیازی جیسے جنونی کو جنم دیا جو آج کسی کے قابو نہیں آرہا ہے۔
آج ہم نئے نئے افغانوں سے اسپورٹس اسپرٹ کا مطالبہ کرہے ہیں لیکن گزشتہ چالیس سالہ کرکٹ نے اس قوم میں جو اسپرٹ پیدا کیا وہ عمران نیازی کی شکل میں موجود ہے۔
جو بحیثیت وزیر اعظم امریکہ میں کھلے عام ایک جلسے میں چہرے پر ہاتھ پھیر کر نواز شریف اور آصف زرداری کو وارننگ دے رہا ہوتا ہے۔
بلاول، مولانا فضل الرحمان اور مریم نواز سمیت اپنے سیاسی مخالفین کے لیے جو زبان استعمال کررہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ اگر ہمارے کرکٹ کے ہیروز کا یہ اسپرٹ ہے تو پھر ایک عام آفغانی سے اتنی توقع تو رکھیں۔
آخر میں مرشد کے الفاظ پر ختم کر رہا ہوں۔
جو اتنی بربادی کے بعد بھی کرکٹ کا دیوانہ ہے اسے پہلی فرصت میں شہید کردو۔
واپس کریں