دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
بلاسفیمی بزنس کے اثرات
اظہر سید
اظہر سید
جب کوئی نوجوان لڑکا یا لڑکی واٹس اپ کے توہین آمیز مسیج ایڈمن کو بھیج کر جال میں پھنس جاتا تو گویا بہت سارے لوگوں کی لاٹری نکل آتی ۔ ملزم کے خلاف مقدمہ کے اندراج کے بعد تفتیش شروع ہوتی اور اس کے فون ڈیٹا میں موجود دوستوں،ساتھیوں اور رابطہ کرنے والوں سے بھی رابطے شروع ہو جاتے ۔
معاملہ چونکہ حساس ہوتا رابطہ کرنے والوں کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے اور انکے پاس جان بچانے کیلئے منت ترلہ اور سفارشیں تلاش کرنے کے علاہ کوئی چارہ نہیں رہتا ۔یہ دودھ دینے والی گائیں بن جاتے اور ان کے دئے گئے دودھ سے جال میں پھنسانے والے چائے پیتے ۔
جال میں پھنسنے والی نوجوان لڑکی ہوتی تو وارے نیارے ہو جاتے کہ اس کی فون میں فرینڈز کی اکثریت لڑکیوں پر ہی مشتمل ہوتی ۔تفتیش کار دوستوں سے رابطے کرتے اور پھر والدین اپنی بچیوں کو بچانے کیلئے خوب دودھ دیتے اور خوب چائے پی جاتی ۔
ایک لڑکی جو گرفتار ہوئی اور جیل میں ہی مر گئی اس کا قصہ دل ہلا دینے والا ہے ۔اس نے گروپ میں توہین آمیز مواد شئیر ہونے پر گھر والوں کو بتایا اور خوب غم و غصہ کا اظہار کیا ۔اس بدقسمت لڑکی کے بدقسمت باپ نے بچی کو گروپ چلانے والوں سے رابطہ کرنے اور مواد ڈیلیٹ کرنے کا کہنے کا مشورہ دیا ۔بچی نے ایڈمن سے رابطہ کیا تو آگے سے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے مواد بھیجنے کا کہا گیا کہ ایسا ممکن نہیں ۔بچی نے مواد بھیج دیا اور ملزم بن گئی ۔
یہ لڑکی جیل میں ڈپریشن کا شکار ہوئی اور پھر اپنے اللہ کے حضور اپنی فریاد کے ساتھ پیش ہو گئی ۔اب خدا کی عدالت میں قاتلوں کا انتظار ہو رہا ہے کہ دنیا کی زندگی پوری کر کے عدالت میں پیش ہوں تاکہ پورا پورا انصاف کیا جا سکے ۔
ایک نوجوان شوگر کا مریض تھا بروقت درکار انسولین نہ ملنے کی وجہ سے یہ بھی خدا کی عدالت میں پہنچ چکا ہے اور قاتلوں کی آمد کا منتظر ہے ۔
جس نوجوان کی سر کٹی لاش بنی گالا کے جنگل سے ملی وہ بھی توہین کا ملزم تھا اور انصاف کی تلاش میں گردن کٹوا بیٹھا یہ بھی خدا کے پاس پہنچ کر قاتلوں کا انتظار کر رہا ہے ۔
جیلوں میں توہین آمیز مواد شئیر کرنے کے جو ملزم درد کی تفسیر بنے انصاف کے منتظر ہیں ان کے خاندان بھی دکھ درد اور تکلیف کی کہانیاں بن چکے ہیں ۔
قانون تو بنا تھا مذہب کے تحفظ کیلئے کچھ لوگوں نے اسے موت کا کاروبار بنا لیا ۔چند پیسوں کیلئے ایجنٹ نوجوانوں کو ڈنکی لگواتے ہیں اور ویرانوں سمندروں تاریک راہوں میں مرنے کیلئے چھوڑ دیتے ہیں ۔
پیسوں کیلئے ڈاکٹر غریب نوجوانوں کو ڈھائی تین لاکھ روپیہ دے کر گردے نکالتے ہیں اور اسی نوائے لاکھ کر بیچ کر اپنی دنیا کو جنت بنا لیتے ہیں ۔
بلاسفیمی کو کاروبار بنانے والے بھی اپنی دنیا کو جنت بنانے کے اسی راستے کے مسافر ہیں ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب پر رحم کرے اور ہمیں تاریک راہوں کا مسافر بننے سے بچائے ۔
واپس کریں