اظہر سید
عقلمند چیف جنرل باجوہ کی چیف شپ میں فوج نے ففتھ جنریشن وار کے نام پر بم کو لات مار دی تھی ۔ چونکہ آپریشن جبڑالر سے لے کر کارگل تک کسی تخلیق کار سے "بلنڈر" کی پوچھ گچھ نہیں ہوئی اس لئے جنرل سلیم باجوہ اور آصف غفور کے اس برین چائلڈ پر بھی چیف باجوہ نے اوکے کا سگنل دے دیا ۔اب یہ تینوں تخلیق کار ریٹائرڈ ہو کر بھاری مراعات سے باقی ماندہ زندگی پر سکون انداز میں گزار لیں گے یا جنرل مشرف کی طرح کسی نایاب بیماری کا شکار ہو کر جنت میں جائیں گے قدرت کو پتہ ہے اور ہمیں کیا پتہ قدرت کو کیا پتہ ہے ۔
ففتھ جنریشن وار کے ہمہ گیر اثرات اس قدر متنوع اور خوفناک ہیں ہمیں نہیں لگتا جنرل عاصم منیر کی چیف شپ میں فوج ریاست کو اس سے بچا پائے گی ۔چار پانچ جنرلوں نے چار پانچ ججوں کو ساتھ ملا کر 2018 میں دشمن قوتوں کو ففتھ جنریشن وار کے پراپیگنڈہ سے جو شکست دی بطور ادارہ فوج نے اسے اپنی غلطی تسلیم کر لیا اور پیچھے ہٹ گئی ۔پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ گیا ہے ۔صرف پیچھے ہٹنے سے مسائل حل نہیں ہوئے ۔ہمہ گیر پراپیگنڈہ کی وجہ سے اداروں، شخصیات اور عوام کو اس جگہ پر مستقل کھڑا کر دیا ہے جہاں سے فوج پیچھے ہٹی تھی ۔
جسٹس شوکت صدیقی نے جب ایجنسیوں کی مداخلت کی بات کی کسی جج نے توجہ دی خط لکھا اور نہ کسی یحییٰ آفریدی نے انہیں بلا کر تحفظات دور کرنے کی یقین دہانیاں کرائیں ۔کوئی یو ٹیوبر روتا بلکتا نظر نہیں آیا ۔ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے راہنماؤں کو جب سالوں جیلوں میں سڑایا گیا کسی عدالت کسی جج کی غیرت جاگی ،ضمانتوں کا جمعہ بازار لگا اور نہ کسی "کالے پونڈ" کو آئین اور قانون کا خیال آیا ،بلکہ ایک کالا پونڈ تو آئین اور قانون کی بتی بنا کر مشرف کا ماضی میں صوبائی وزیر بھی بن گیا تھا ۔
ججوں کی یہ کایا پلٹ ایک ہمہ گیر ففتھ جنریشن وار کی وجہ سے ہوئی ہے ۔ففتھ جنریشن وار کے پراپیگنڈہ سے عام عوام نہیں بلکہ اداروں "عدلیہ فوج خاص طور پر" میں ایک رائے بن گئی تھی ۔اب عاصم منیر اور انکی ٹیم یہی کچھ بھگت رہی ہے ۔جس طرح اپنے بنائے طالبعلموں اور ایم کیو ایم میں دشمن ریاستوں کی ایجنسیاں نفوز کر گئی تھیں ففتھ جنریشن وار کی آڑ میں یہ ایجنسیاں اب میڈیا،عدلیہ اور اداروں میں بھی نفوز کر گئی ہیں ۔
ایک بہت آسان بات ہے ۔سوشل میڈیا پر جب نوجوان ،بوڑھی بلوچ خواتین اپنے پیاروں کے لاپتہ ہونے پر کہرام مچائیں گی اس کے اثرات ہونگے ۔بلوچ نوجوانوں میں عسکریت پسندوں کے ساتھ مل کر بدلہ لینے کے جذبات پیدا ہونگے اور یہ سلسلہ ختم نہیں ہو گا.اس وقت تک پندرہ کیس سامنے آ چکے ہیں جن بلوچ نوجوانوں کے لاپتہ ہونے کا بلوچ بہنیں ،بیٹیاں ،بیویاں اور مائیں نوحہ پڑھتی تھیں اور اس سے بلوچ نوجوانوں اور عام عوام میں میں فوج اور ریاست کے خلاف نفرت پیدا ہوتی تھی ، بلوچوں کے ساتھ ہمدردی پیدا ہوتی تھی وہ لاپتہ نہیں تھے بلکہ فدائی حملہ آور بن کر بھاری نقصان پہنچا رہے تھے۔ یقینی طور پر ریاستی ادارے بلوچ نوجوانوں کو گرفتار کرتے ہیں لیکن بہت سارے خود بھی پہاڑوں میں غائب ہو جاتے ہیں، عسکریت پسندوں کے ساتھ مل جاتے ہیں اور بلوچ خواتین ان کا نوحہ پڑھتی نظر آتی ہیں ۔
سوشل میڈیا پر جھوٹ دھوکہ اور فراڈ کا بازار گرم ہے کہ غیر ملکی ایجنسیاں بھی اب سائبر سیل چلانے لگی ہیں ۔
فوج ہماری ہے ۔فوج کو جمہوریت کے دائرہ میں لایا جا سکتا ہے لیکن جس طرح فوج کو ولن بنایا جا رہا ہے سرا سر گھاٹے کا سودا ہے ۔
بظاہر ماضی کی ففتھ جنریشن وار اور موجودہ ڈیجیٹل دہشت گردی کا کوئی علاج نہیں تاہم معاملہ کے حل کیلئے بھارت کو دوست بنانا ہو گا ۔امریکہ اور چین میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہو گا ۔افغانستان کو چین روس اور خطہ کی دوسری طاقتوں سے مل کر غیر جانبدار بنانا ہو گا تاکہ پاکستان مخالف سرگرمیوں کیلئے کسی گرو کو افغان سرزمین میسر نہ ہو سکے ۔
جلا وطن بلوچ راہنماؤں کو انگیج کرنا ہو گا کہ بلوچ عسکریت پسندوں کے ہنڈلرز حکمت عملی تبدیل کر رہے ہیں ۔وہ فوجی تنصیبات اور چینیوں پر حملہ آور ہونے کے ساتھ اب عام لوگوں کو بلا امتیاز نشانہ بنانے لگے ہیں ۔
جس طرح لال مسجد آپریشن کے بعد بیڈ طالبعلموں نے ریاست دوست قبائلی عمائدین کو قتل کرنا شروع کیا تھا اسی طرح بلوچستان میں ریاست کی حلیف بلوچ شخصیات کو قتل کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے ۔
پاکستان بتدریج معاشی نادہندگی سے نکل رہا ہے لیکن بہت ساری قوتوں کو یہ پسند نہیں ۔
آئینی ترامیم سے ججوں کا ڈنک تو نکال دیا گیا ہے لیکن دوسری طرف بھی حکمت عملی تبدیل کی جا رہی ہے ۔مسائل حل ہو سکتے ہیں لیکن راستے میں بہت سارے سوال موجود ہیں کہ بھارت سے دوستی اور جلا وطن بلوچ راہنماؤں سے بات چیت کی اجازت ملے گی یا نہیں ۔چین اور امریکہ میں سے کسی ایک کا انتخاب ہو گا یا دو کشتیوں کی سواری ہو گی ۔افغانستان کو غیر جانبدار کرنے کیلئے درکار اقدامات کرنے کی اجازت ہو گی یا آنکھ مچولی جاری رہے گی ۔
واپس کریں