اظہر سید
قاضی فائز عیسیٰ ہیرو تھے ہیں اور رہیں گے ۔ان کی حیثیت کا تعین سوشل میڈیا کی پیسے کے لالچ میں ہلکان مہم نے نہیں کرنا بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ قاضی عیسیٰ کے مقام کا تعین ہونا ہے ۔
جنرل راحیل شریف کے دور میں شروع کردہ ڈرامہ کے خدو خال کو جنرل باجوہ اور جنرل فیض نے چند ججوں کو ساتھ ملا کر حتمی شکل دی ۔اس وقت کے کور کمانڈر کی شائد غالب تعداد نواز شریف کے دور کی معاشی ترقی کو خارجہ اور داخلہ پالیسیوں کیلئے خطرہ سمجھ رہی تھی ۔شائد سی پیک کی وجہ سے چینی اثر رسوخ میں اضافہ انہیں پسند نہیں تھا ۔شائد امریکہ سے سٹاف کورس کرنے والے کمانڈر کمپرومائز ہو چکے تھے ۔شائد جنرل مشرف کے ٹرائل کے فیصلہ سے فوجی کمانڈروں میں اجتماعی غصہ تھا ۔
نواز شریف کو نکالنے کے بعد جو کچھ بھی ہوا اس کے نتایج اور اثرات سے پاکستان کو بچانے کی قیمت قاضی فائز عیسیٰ نے ادا کی ہے ۔یہ قیمت نواز شریف ،اصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن نے ففتھ جنریشن وار پلوٹون کے زہریلے پراپیگنڈے کا سامنا کر کے ادا کی تھی ۔قید و بند کا سامنا کیا تھا لیکن یہ سیاستدان تھے ۔انہیں مخالف پراپیگنڈہ کی عادت ہوتی ہے وہ برداشت کر جاتے ہیں۔۔
تحریک عدم اعتماد کو سائفر کے بہانے مسترد کرنے اور پھر افواج کو ہدف بنانے والے سسٹم کو چیلنج کرنے کی قیمت قاضی فائز عیسیٰ نے ادا کی ہے ۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے صرف خط لکھنے والے چھ جج نہیں ایک پورا انفراسٹرکچر موجود ہے جو فوج کے حاضر اور ریٹایرڈ لوگوں میں ہے۔ سول بیوروکریسی میں ہے ۔معاشرے کا ایک بڑا حصہ اس پراپیگنڈہ کا اسیر ہے ۔ ملک کی اعلی ترین عدالت کے سابقہ پالتو موجودہ باغی جج اس خودکار انفراسٹرکچر کا حصہ بن چکے ہیں۔قاضی فائز عیسیٰ نے صرف پاکستان کو نادہندہ کرانے کیلئے آئی ایم ایف کو خط لکھنے والے۔ نادہندگی کی آڑ میں ایٹمی اثاثوں کو خطرہ میں ڈالنے والے مائنڈ سیٹ کا راستہ نہیں روکا پارلیمنٹ کو طاقت فراہم کرنے کی قیمت بھی ادا کی ہے ۔
دو دو پیسے کے جو کتے یوٹیوبرز قاضی فائز عیسیٰ پر بھونک رہے ہیں وہ مظاہر ٹرکاں والے،اعجاز الاحسن ،بنڈیال اور آئین ری رائٹ کرنے والوں پر اس طرح نہیں بھونکے ۔
میڈیا کا بڑا حصہ جو پالتو بنایا گیا تھا وہ بھی ججوں کی طرح باغی ہوا اور یہ قیمت بھی قاضی فائز عیسیٰ نے ادا کی ۔
سابق چیف جسٹس چلے گئے ہیں لیکن ان کے قدموں کے نشانات میں قطار میں بیٹھے مستقبل کے چار چیف جسٹس بھی گم ہو گئے ہیں ۔
سابق چیف جسٹس جاتے ہوئے وہ زبان بھی کاٹ کر لئے گئے ہیں جو کہتی تھی "میں قانون ہوں" اب قانون وہی ہو گا جو پارلیمنٹ بنائے گی ۔
قاضی فائز عیسیٰ نے جاتے ہوئے طاقتور مالکان پر بھی احسان کیا ہے ۔وہ جج جو حالات کے جبر کا شکار فوج کو شکار کرنے کی سوچ رکھتے تھے انہیں بھی گول گول گھوم کر اپنی دم پکڑنے میں مصروف کر دیا ہے ۔
قاضی فائز عیسیٰ نے 2018 میں جو کچھ کیا گیا تھا اسکی قیمت ادا کی ہے ۔
واپس کریں