اظہر سید
طاقتور اسٹیبلشمنٹ کبھی ایسی نہیں تھی کوئی وزیراعلی سات گھنٹے "میٹنگ" کے بعد ایک دن خاموش رہے اور دوسرے دن بغاوت کر دے ۔علی امین گنڈا پور نے آج وکلا سے گفتگو میں طاقتور اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کیا ہے ۔ ملین ڈالر سوال یہ ہے باغیانہ گفتگو سے پہلے کس پراسرار ہاتھ نے لکی مروت کے بعد باجوڑ پولیس کا بھی فوج کے خلاف احتجاج شروع کرا دیا ۔
جو مطالبات لکی مروت پولیس کے تھے وہی مطالبات باجوڑ پولیس کے بھی ہیں یعنی سارا مدعا فوج پر ڈال دیا ہے کہ ان علاقوں سے فوج نکل جائے امن و امان ہم خود قائم کر لیں گے ۔بنوں کینٹ پر خود کش حملے کے بعد دستانے والے ہاتھوں نے پختون تحفظ موومنٹ ،پی ٹی آئی اور طالبان کو ایک ہی احتجاجی پلیٹ فارم دیا تھا اور بنوں میں احتجاج شروع کروا دیا گیا ۔
یہ دستانے والے ہاتھ ہر جگہ موجود ہیں ۔مستقبل کا چیف جسٹس ایک تقریب میں اسٹیج سے اتر کر معمولی امریکی سفارتکار کے پاس جا بیٹھتا ہے ۔ایک کالا بھونڈ امریکہ جا پہنچتا ہے اور سیمنار میں خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے "خط لکھنے والے چھ جج میرے ہاتھوں کے لگائے پودے ہیں۔ ایک گرین کارڈ ہولڈر جج آئے روز آئی ایس آئی کا للکارے مارتا ہے ۔کبھی خفیہ ایجنسیوں کی فون ٹیپنگ پر پابندی لگاتا ہے اور کبھی سابق چیف جسٹس کے بیٹے کے پی ٹی آئی ٹکٹ بیچنے کے مقدمہ پر حکم امتناعی دے کر بیٹھ جاتا ہے ۔
چند ہفتوں بعد پی ٹی ایم ایک قومی جرگہ منعقد کرنے جا رہی ہے جسکا ہدف بظاہر صوبوں کے درمیان نیا سوشل کنٹریکٹ ہے لیکن اصل ہدف نادہندہ ملک میں فوج کو دیوار سے لگانا ہے۔
ایک طرف بلوچ عسکریت پسند پنجابیوں کو نشانہ بنا کر صوبائی نفرت پھیلانے کے درپے ہیں دوسری طرف وادی تیرا کے دشوار گزار علاقوں میں ہر روز طالبعلموں کی قطاریں پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کرتی ہیں ۔دوسری طرف کابل سرینا ہوٹل میں چائے کی پیالی میں طالبعلموں کو پاکستان لانے کی قیمت ادا کی جا رہی ہے اور ہر دوسرے روز مسلح طالبعلم فوجی اہداف پر حملے کرتے ہیں۔
آج صوبائی وزیر اعلی نے افغانستان سے براہ راست مذاکرات کی بات کر کے جنرل باجوہ اور فیض حمید کے بنائے نقشے میں قدم رکھ دیا ہے ۔
آرمی چیف کو چاروں طرف سے یلغار کا سامنا ہے ۔پینٹاگوں کی بجائے بیجنگ کا دورہ کر کے عاصم منیر نے اس راستے کا انتخاب کیا تھا جو امریکیوں کے نزدیک علاقہ غیر ہے ۔جنرل فیض حمید کے کورٹ مارشل کے فیصلے سے امید تھی معاملات بہتری کی طرف چل پڑیں گے لیکن لگتا ہے پینٹاگون کی جڑیں بہت دور تک پھیلی ہوئی ہیں ۔
اندرونی معاملات تو ایک طرف آئی ایم ایف کے زریعے الگ سے بازو مروڑا جا رہا ہے ۔پہلے پنجاب حکومت کے بجلی کے بلوں میں ریلیف کے بہانے پاکستان کو نومبر اور ستمبر کے ایجنڈے میں شامل نہیں کیا اب مزید ٹیکس لگانے کے مطالبات کئے جا رہے ہیں۔ بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ سے مڈل کلاس طبقہ کا کچومر نکلوا کر فنڈ مزید ٹیکس لگانے کے مطالبات کر رہا ہے ۔یعنی نادہندگی سے بچ گئے ہو تو افراتفری سے بچ کر دکھاؤ ۔
جب تک فنڈ صحتیابی کا سرٹیفکیٹ نہیں دے گا کوئی عالمی کمرشل بینک ہمیں پیسے نہیں دے گا اور نہ دوست ممالک ہاتھ تھامیں گے ۔
صاف صاف مطلب یہ ہے پاکستان کو گھیرا جا رہا ہے اور فوج کو ولن بنا کر ایٹمی اثاثوں اور سی پیک کا باب پاکستانی نصاب سے نکالنے کی سازش ہو رہی ہے ۔ ایٹمی اثاثے گئے تو فوج کو عراق ،لیبیا اور شام کی طرح بے اثر کیا جا سکے گا ۔
ہم نہیں سمجھتے کہ علی امین اسقدر بڑا لیڈر ہے عوام کے حق ملکیت کیلئے طاقتور فوج کو چیلنج کر دے ۔ہم سمجھتے ہیں فوج کو چیلنج کرنے والے جج،یوٹیوبرز اور سیاستدان اسی کھیل کا ایک حصہ بن گئے ہیں جس کا مقصد افراتفری پیدا کر کے خانہ جنگی کی راہ ہموار کرنا ہے تاکہ مشہور عالم ڈیلٹا فورس ایٹمی اثاثوں کو انتہا پسندوں سے بچانے کے بہانے عالمی چھتری تلے اپنا کردار ادا کرنے آ پہنچے ۔
جنرل اسلم بیگ نے امریکیوں کو آنکھیں دکھائیں تھیں لیکن فوج کے ڈسپلن اور چین آف کمانڈ کے تقدس نے ان پر آنچ نہیں آنے دی ۔
فوج کا ڈسپلن اور چین آف کمانڈ کا موثر نظام ہی پاکستان کے تحفظ کی ضمانت ہے ۔ چین آف کمانڈ کا تقدس تباہ کرنے کی سازش سمجھنا ہو تو جنرل شاہد عزیز کی کتاب "یہ خاموشی کب تک" پڑھی جائے پتہ چل جائے گا پینٹا گون کے ایجنٹ کس طرح ریاست کے اندر تک گھس جاتے ہیں ۔
دعا کریں چین آف کمانڈ کا تقدس برقرار رہے ۔جب تک طاقتور فوج موجود ہے اور مہلک ہتھیار محفوظ ہیں ہر مشکل پر قابو پا لیا جائے گا ۔اس سسٹم کو دشمن نقصان پہنچانے میں کامیاب ہوا تو پھر خانہ جنگی ہی مقدر ہو گا ۔
واپس کریں