اظہر سید
اسلام کے بنیادی تصورات کے مطابق موت سامنے ہو تو زندگی بچانے کیلئے حرام کھایا جا سکتا ہے ۔دنیا کا موجودہ مالیاتی نظام سود پر مشتمل ہے ۔جو ریاست اس نظام سے نکلے گی ختم ہو جائے گی ۔ائینی ترمیم میں سود کے خاتمہ کا اعلان کیا گیا ہے لیکن کیا یہ ممکن ہے پاکستان عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں پر سود دینے سے انکار کر دے ۔کیا یہ ممکن ہے عالمی کیپٹل مارکیٹ میں پاکستان اپنے فروخت کردہ بانڈز پر وعدہ کردا سود دینے سے انکار کر دے ۔
کیا یہ ممکن ہے اسٹیٹ بینک نجی بینکوں سے حاصل کردہ قرضوں پر سود کی ادائیگی سے انکار کر دے ۔بینک اور مالیاتی ادارے صنعت و تجارت کیلئے دئے گئے قرضوں پر سود لینے سے انکار کر دیں ۔لوگوں کے فکس ڈیپازٹ پر منافع دینا بند کر دیں ۔ پاکستان دوست ممالک سے زرمبادلہ کے ذخائر کیلئے رکھے گئے ڈالر ڈیپازٹس پر بھی منافع یعنی سود دینے سے انکار نہیں کر سکتا کیونکہ ان کے پیچھے ریاست کی ضمانت ہے ۔
جب تک دنیا کا موجودہ نظام "کیپٹلزم ختم نہیں ہوتا کوئی ریاست مسلمان یا غیر مسلم سودی نظام معیشت سے انکار نہیں کر سکتی جو ریاست ایسا کرے گی وہ بہت مختصر عرصہ میں تحلیل ہو جائے گی ۔کروڑوں شہری بے خانماں خراب ہو کر مارے جائیں گے ۔
اسلام کے بنیادی تصورات میں قرآن اور حدیث کے ساتھ دو اور اہم چیزیں بھی ہیں جو اجماع اور قیاس ہیں ۔
مذہبی راہنما اسلام کے بنیادی تصورات اور دنیا کے جاری نظام میں تضاد کی صورت میں اجماع سے کام لیتے ہیں تاکہ مسلمانوں کو اجتماعی خودکشی ،تباہی یا بے خانماں خرابی سے محفوظ رکھا جا سکے ۔
یہ اجماع ہے جسکی وجہ سے دنیا کے تمام مسلمان ممالک سعودی عرب سمیت سودی معیشت پر چل رہے ہیں ۔پاکستانی علما نے سود سے پاک نظام کی آئینی ترامیم تو منظور کرا لی ہیں لیکن ان پر عملدرامد کیسے ہو گا متبادل راستہ نہیں بتایا ۔
مولانا تقی عثمانی کا سود سے پاک مالیاتی نظام مضاربہ ،مشارقہ وغیرہ سود سے پاک نظام نہیں صرف کان کا دوسری طرف سے پکڑنے کا طریقہ ہے اور بینکنگ سسٹم سے واقف سود سے پاک اس نظام پر صرف مسکراتے ہیں اور کچھ نہیں کہتے ۔
بینکوں اور مالیاتی اداروں نے سود سے پاک اس نظام کی ایڈوائزری کیلئے مولانا تقی عثمانی کی محبت کا جواب محبت سے دینے کیلئے ماہانہ ہدیہ کیلئے جو کروڑوں روپیہ کا بجٹ رکھا ہے اس سے دال دلیہ خوب اچھی طرح چل جاتا ہے لیکن سودی نظام ختم نہیں ہوتا ۔
سود کے نظام کی ضمانت ریاست دیتی ہے اس لئے پاکستانی مسلمان علما اکرام سمیت جو بھی اس نظام سے استفادہ کرتا ہے وہ گنہگار نہیں ہوتا کیونکہ ریاست کے قوانین کی پاسداری بھی اسلام کے بنیادی تصورات کا مرکزی نکتہ ہے ۔
انفرادی طور پر اگر کوئی مسلمان ریاست کی طرف سے سودی نظام کو تسلیم نہیں کرتا تو اس کیلئے بھی ایک راستہ اسلام میں ہی موجود ہے جو "قیاس" کا ہے .
ایک کشتی پانی میں ڈوب جائے سارے مسافر مر جائیں ایک لڑکا اور لڑکی بچ جائیں اور کسی ویران جزیرہ پر پہنچ جائیں تو وہ خدا کو گواہ بنا کر شادی کر سکتے ہیں اور یہ اسلام کے مطابق قیاس کے زمرے میں آتا ہے ۔
کوئی عام شہری ریاست کے سودی نظام کو تسلیم نہیں کرتا اور خلاف اسلام سمجھتا ہے تو وہ قیاس کے تصور کو اپنا کر اپنے پیسے بینک میں جمع نہ کرائے یا بینک کو تحریری طور پر لکھ دے کہ اسے منافع نہیں چاہئے ۔
سودی نظام جاری رہے گا اور اسے ختم کرنا ممکن نہیں ۔پاکستان دنیا کے چالیس سے زیادہ مسلم ممالک میں اکیلا مسلمان ملک نہیں ۔جب باقی سارے اسلامی ممالک میں یہ نظام چل رہا ہے تو پاکستان میں بھی چلے گا یہی سچ ہے ۔
واپس کریں