اظہر سید
بلوچ نوجوانوں کو پتہ ہی نہیں وہ سی پیک کی بھٹی میں بطور ایندھن جلائے جا رہے ہیں ۔پنجاب ،سندھ اور کے پی کے کے ہزاروں نوجوان جب کشمیر اور افغانستان جا رہے تھے انہیں خبر نہیں تھی وہ شہ رگ اور تزویراتی گہرائی والے پانچویں صوبے میں بطور ایندھن جلائے جا رہے ہیں ۔افغان مہاجر چالیس سال بعد روتے ہوئے پاکستان کی مٹی کو چومتے ہوئے افغانستان جا رہے ہیں جب انہیں ورغلایا جا رہا تھا "ہجرت" کیلئے آمادہ کیا جا رہا تھا وہ نہیں جانتے تھے انہیں سوویت یونین کے خلاف بطور ایندھن استعمال کیا جا رہا ہے ۔
ایسا نہیں ہے انہیں خبردار نہیں کیا گیا ۔پاکستان اور افغانستان کی بہت ساری آوازیں انہیں بتاتی تھیں اپنا وطن مت چھوڑو ۔تمہیں ایندھن کے طور پر استعمال کر کے پھینک دیا جائے گا ۔تمہاری نسلیں اپنی مٹی سے اپنا رشتہ کھو بیٹھیں گی ۔چالیس سال پہلے جو احمق روکنے والی ان آوازوں کو نظر انداز کر کے ہجرت کر گئے، مہاجر بن کر اپنا وطن چھوڑ گئے بیشتر مر کھپ گئے ہیں لیکن اپنی انگلی نسل کو بے شناخت کر گئے ہیں ۔
افغانستان پر سوویت حملے اور 1980 کی دہائی میں کشمیر جہاد کے دوران جب ہزاروں نوجوان بھٹی میں جلائے جا رہے تھی اس وقت بھی مقبوضہ کشمیر،ازاد کشمیر ،پاکستان اور افغانستان میں بہت ساری آوازیں انہیں خبردار کرتی تھیں بھٹی میں جلا دئے جاؤ گے بندوق مت اٹھاؤ لیکن یہ نہیں مانے اور آج جانے والوں میں سے شائد چند ہی ہوں جو زندہ واپس آئے باقی سارے بھٹی میں جلا دئے گئے ۔
جو مولوی ان نوجوانوں کو پاکستان ہجرت پر اکساتے تھے ۔انہیں پاکستان سے مقبوضہ کشمیر اور افغانستان بھیجنے کیلئے جنت کے حصول ،ازادی کے دل فریب نعروں میں الجھاتے تھے شائد ان میں بھی چند درجن ہی زندہ ہوں لیکن دونوں میں بہت فرق ہے ۔بھیجنے والوں نے ایندھن کا خوب معاوضہ لیا اپنی نسلیں سنوار لیں ۔اور جو یھیجے گئے انکی نسلیں تباہ ہو گئیں ۔بے خانماں خراب ہو گئے ۔
آج جو بلوچ نوجوان آزادی کے پرکشش، دل فریب نعرے میں الجھا کر افغانستان اور بلوچستان کے پہاڑوں میں بھیجے جا رہے ہیں انہیں بھارت اور امریکہ کے اسی طرح کے کردار سی پیک کی بھٹی میں بطور ایندھن جلا رہے ہیں جس طرح کے پاکستان ، روس اور چین کے کردار شہ رگ ،تزویراتی گہرائی کی بھٹی میں جلاتے تھے ۔
جو کل استمال ہوئے انکی قبریں نامعلوم ہیں جو آج استعمال ہوئے انکی قبریں بھی نامعلوم ہونگی ۔
جو کل استعمال ہوئے آج وطن واپسی پر انکی زمینوں پر قابض انکے ہم وطن انہیں مارتے ہیں جو آج استعمال ہو رہے ہیں کل وطن واپسی پر انہیں بھی انکے ہم وطن ماریں گے ۔
جو کل نوجوانوں کو دل فریب نعروں میں الجھا کر بھیجتے تھے دلال تھے جو آج بلوچ نوجوانوں کو ورغلا کر بندوق ہاتھ میں تھما کر پہاڑوں میں بھیجتے ہیں دلال ہیں ۔
یہ دلال ایجنٹ ہوتے ہیں جو کسی بڑی طاقت سے معاوضہ وصول کرتے ہیں اور نوجوان بطور ایندھن انہیں فراہم کرتے ہیں ۔کوئی ایجنٹ کسی یورپی ملک بیٹھا ہے تو کوئی کسی اور محفوظ پناہ گاہ میں ۔وہاں سے فنڈز ،اسلحہ ،اہداف دیتا ہے جس طرح کل یہاں سے افغانستان اور کشمیر جانے والوں کو فنڈز ،اسلحہ اور اہداف دئے جاتے تھے ۔
کل والوں کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آیا آج والوں کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آئے گا ۔
واپس کریں