دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
" بابڑہ ۔۔۔ کربلا صغریٰ "
طاہر سواتی
طاہر سواتی
یہ آج سے 72 سال قبل کی کہانی ہے۔ 12 اگست 1948 کو دو دن بعد پاکستان اپنے قیام کی پہلی سالگرہ منا رہا تھا،ایسے میں چارسدہ کے گاؤں بابڑہ میں خدائی خدمت گار ایک پرامن جلوس لیکر نکلے۔ وہ احتجاج جو انگریز راج میں تو مسلمان ہند کا بنیادی حق تھا لیکن اسلام کا قلعہ بننے کے بعد یہ ناقابل معافی جرم بن گیا تھا۔واقعہ کچھ یوں تھا کہ قیام پاکستان کے وقت صوبہ خیبرپختونخوا میں ڈاکٹر خان کی قیادت میں خدائی خدمت گاروں کی حکومت تھی۔ قیام پاکستان کے ایک ہفتے بعد اس حکومت کو غیر آئینی طریقے سے ختم کیا گیا،جمہوری اصولوں کے مطابق اگر مرکزی حکومت کو صوبائی حکومت کے قیام پر اعتراض تھا تو اس کے لیے تین دستوری راستے تھے۔
پہلا راستہ گورنر راج کا نفاذ ،
دوسرا طریقہ نگران حکومت کے ساتھ نئے انتخابات کا اعلان
اور تیسرا راستہ ان ہاؤس کے ذریعے نئی حکومت کی تشکیل ۔۔
لیکن قائد اعظم محمد علی جناح جیسے اصول پرست کے ہوتے ہوئے ریاست نے ان میں سے کسی ایک راستے کو اپنانے کی بجائے ایک کشمیری عبد القیوم خان کو وزیر اعلیٰ کی کرسی پر بٹھا دیا۔
الزام یہ تھا کہ یہ کانگریسی حکومت ہے۔
جبکہ حقیقت یہ تھی کہ عبدالقیوم خان خود پاکستان بننے سے صرف ایک سال قبل 1946 میں کانگریس کو چھوڑ کر مسلم لیگ میں شامل ہوگئے تھے۔
23 آگست 1947 کو عبدالقیوم خان نے وزیر اعلی بن کر خدائی خدمت گاروں پر زمین تنگ کی ۔
جولائی 1948ء۔ میں خیبر پختونخوا کے گورنر نے ’پبلک سیفٹی آرڈیننس‘ جاری کیا۔اس آرڈیننس کے ذریعے حکومت کو اختیار دیا گیا کہ وہ بغیر کسی وجہ کے کسی بھی شخص کو غیر معینہ مدت کے لئے حراست میں لے سکتی ہے اور اس کی جائیداد ضبط کرسکتی ہے۔حراست میں لیے گئے شخص کو یہ اختیار بھی حاصل نہیں تھا کہ وہ اپنی گرفتاری کو کسی عدالت میں چیلنج کرسکے۔اس آرڈیننس کے تحت متعدد لوگوں کو حراست میں لیا گیا اور ان کی جائیدادیں ضبط کر لی گئی گئیں۔ ان میں باچا خان، ڈاکٹر خان صاحب، قاضی عطاء اللہ، ارباب عبدالغفور خان اور دیگر لوگ شامل تھے۔ان رہنماؤں کی گرفتاری کے خلاف صوبائی جرگے نے 12 اگست کو بابڑہ کے مقام پر پرامن مظاہرے کا اعلان کیا۔
قیوم خان نے پولیس اور پیرا ملٹری فورس کی بھاری نفری بلالی دوسری طرف پارٹی کے ورکرز بھی صوابی، نوشہرہ، مردان اور دیگر جگہوں سے چارسدہ آنا شروع ہوگئے۔
ہزاروں لوگ جمع ہو چکے تھے کہ اچانک نہتے کارکنوں پر گولیاں برسنے لگیں۔
جمہوری قافلے کا پہلا شہید سپین ملنگ تھا جو مظاہرین کے آگے آگے جارہا تھا۔ جس نے جمہوریت کی خاطر اپنے سینے پہ 52 گولیاں کھائیں!
700 کے قریب لوگ شہید اور ایک ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔
ایک سیاسی رہنما محمد طاہر کاکا جو اس وقت مقامی سکول میں پڑھتے تھے۔انہوں نے ایک خصوصی انٹرویو اس وقت کا آنکھوں دیکھا حال کچھ یوں سنایا ہے،
’جیسے ہی فائرنگ رکی، میں گھر کی طرف دوڑا۔ ہمارے گھر کا بیرونی دروازہ اور تمام کمروں کے دروازنے کھلے ہوئے تھے۔میں چیخا چلایا مگر کسی کی آواز نہ آئی۔میں سمجھ گیا کہ میرے گھر کے تمام لوگ مارے گئے ہیں۔ میں ایک بار پھر مقتل کی طرف بھاگا وہاں پر ایک قیامت برپا تھی بہنیں، بیویاں اور مائیں خون کے تالاب میں ایک لاش سے دوسری لاش اور ایک زخمی سے دوسرے زخمی کی طرف دوڑ رہی تھیں۔مجھے لگا کربلا کا منظر بھی ایسا ہی ہوگا۔ہر طرف چیخ و پکار تھی۔میں بھی رو رہا تھا۔اچانک میں نے اپنی ماں کو دیکھا اس کے سر پر دوپٹہ نہیں تھا۔مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ اس نے اپنے دوپٹے سے زخمیوں کے خون کو بند کرنے لیے پٹیاں بناتی تھیں"
ولی خان کی اہلیہ اور اسفندیار خان کی والدہ تاجو بی بی زخمیوں کی دیکھ بھال میں مصروف تھیں۔‘ضلع نوشہرہ کے جے پور کے والد سریندر بھی خدائی خدمتگار تھے۔وہ بھی اس مظاہرے میں شرکت کے لیے گئے تھے مگر کبھی واپس نہیں آئے۔ جے بتاتے ہیں کہ ان کے والد کی لاش انہیں واپس نہیں کی گئی۔مقامی لوگ کے مطابق درجنوں کے حساب سے لاشیں دریا برد کر دی گئی تھیں۔جے پور کہتے ہیں کہ شمشان گھاٹ میں والد کی لاش کو نہ جلانے کا دکھ ابھی تک ان کے دل میں ہے۔
ستمبر 1948 میں وزیراعلیٰ عبدالقیوم خان نے صوبائی اسمبلی میں کہا کہ
’میں نے بابڑہ میں دفعہ 144 نافذ کر دی تھی۔ جب لوگ منتشر نہیں ہوئے تب ان پر فائرنگ کی گئی۔ وہ خوش قسمت تھے کہ پولیس کے پاس اسلحہ ختم ہو گیا ورنہ وہاں سے ایک بھی آدمی زندہ بچ کر نہ جاتا۔‘
عبدالقیوم خان نے اسمبلی میں موجود اپوزیشن کے چار ارکان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر یہ مارے جاتے تو حکومت کو اس کی کوئی پروا نہ ہوتی،
کہا جاتا ہے کہ چلائی گئی گولیوں کا تاوان بھی شہداء کے لواحقین سے وصول کیا گیا۔۔
اسکندر مرزا کے بقول سرحد میں کشیدگی کے واحد زمہ دار کشمیری وزیر اعلیٰ عبد القیوم خان تھے۔
کل مریم نواز کے جلوس پر پولیس نے پتھر مارے تو پنجاب کو ریاست جبر کا احساس ہورہا ہے۔
سوچیں جنہوں نے لاشیں اٹھا کر پھر بھی ریاست سے وفاداری نبھائی ان کا کتنا بڑا جگرا ہوگا۔
یہی غدار ڈاکٹر خان پھر ایک پنجابی فیروز خان نون کے ساتھ جمہوریت کے لیے کھڑا ہے۔
اور جب غیر جمہوری قوتوں نے فاطمہ جناح پر زندگی تنگ تو وہی غفار خان اس کے شانہ بشانہ کھڑا تھا جس کے پیروکاروں پر اس کے بھائی کی حکومت میں گولیاں چلائیں گئیں۔
لیکن یہ سلسلہ رکا نہیں ،
بہتر سال بعد آج بھی خڑ کمر اور چمن بارڈر پر بابڑہ کی سنت دہرائی جارہی ہے۔
آج بھی ان کی حب الوطنی مشکوک ہے۔ اور ایک محب وطن میر محمد خان برملا اعلان کر رہا ہے کہ
چمن میں مارا ہے اور پھر بھی ماریں گے۔۔
ہمی بنیاد کا پتھر ہیں لیکن
ہمیں گھر سے نکالا جا رہا ہے!!
لیکن ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔۔
بقولِ راحت اندوری
‏لُو بھی چلتی تھی تو وہ بادِ صبا کہتے تھے
پاؤں پھیلائے اندھیروں کو ضیاء کہتے تھے
اُن کا انجام تجھے یاد نہیں ہے شاید
اور بھی لوگ تھے جو خود کو خدا کہتے تھے۔
واپس کریں