دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
' ابراج گروپ اور عارف نقوی کی کہانی'
طاہر سواتی
طاہر سواتی
نوٹ:( جس عارف نقوی اور عمران نیازی کی گھٹ جوڑ پر آج سارا ملکی و غیر ملکی میڈیا شور مچا رہا ہے ہم نے اس کے بارےمیں 30 جنوری 2021 کو لکھا۔لیکن ہمارے جیسے دو ٹکے کی خود ساختہ دانشوروں کو کون سنتا اور پڑھتا ہے۔ اور خاص کر جب آپ ن لیگ جیسی کھسی پارٹی کے حق میں لکھتے ہوں۔ یہاں ارشاد بھٹی، عمران ریاض، ارشد شریف اور صدیق جان جیسوں کا جھوٹ بکتا ہے)
اپریل 2019 میں برطانیہ کے میٹروپولیٹن پولیس نے ابراج گروپ کے سربراہ عارف نقوی کو امریکہ کے سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن کی شکایت پر لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ سے اس وقت گرفتار کیا جب وہ اسلام آباد کے لئے اڑان بھر رہے تھے، گرفتاری کے وقت اُنہوں نے برطانوی حکام کو وزیراعظم عمران خان اور صدر عارف علوی کا فون نمبر دیا اور بتایا کہ وہ اُن کے بیس سال سے دوست ہیں،
برطانیہ کے ویسٹ منسٹر مجسٹریٹ کی عدالت میں اس وقت مقدمہ چلتا رہا، کاروائی کے دوران پاکستان حوالگی کی درخواست کو جج نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا، کہ
‏ ’عارف نقوی کے پاکستان میں اعلیٰ بااثر شخصیات کے ساتھ تعلقات ہیں جن میں وزیراعظم پاکستان عمران خان بھی شامل ہیں۔‘

کل اسی عدالت نے اس سے امریکی حوالگی سے متعلق فیصلہ سنا دیا ہے۔ جہاں اسے دھوکہ دہی ، منی لانڈرنگ اور جعلسازی کے الزامات کا سامنا تھا جس کی بنیاد پر انہیں 300 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی،
اس سے قبل جون 2020 میں عارف نقوی کے گرفتار کاروباری پارٹنر سیوندرن ویتیوت نے امریکہ کے حوالےکیے جانے پر رضامندی کا اظہار کر دیا تھا۔ وہ امریکہ کے حوالے کیے جانے پر اپنے جرم کا اعتراف کرنے اور عارف نقوی کے خلاف گواہی دینے کے لیے تیار ہیں،
عارف نقوی کون ہیں؟؟

سنہ 1960 میں کراچی کے ایک متوسط طبقے میں پیدا ہونے والے عارف نقوی نے لندن کے اسکول آف اکنامکس سےگریجوئیشن کی، جس کے بعد کراچی میں امریکن ایکسپریس سے منسلک ہوگئے۔
سنہ 1994 میں عارف نقوی نے 50 ہزار امریکی ڈالر کی خطیر رقم سے دبئی میں سرمایہ کاری کا آغاز کیا۔ انھوں نے پہلے دبئی میں کپولا کے نام سے کمپنی بنائی۔
سنہ 2002 میں عارف نقوی نے ابراج گروپ کے نام سے فرم قائم کی جو دیکھتے ہی دیکھتے مشرق وسطیٰ اور شمالی امریکہ میں سب سے بڑا سرمایہ کار گروپ بن گیا۔
جس کی دبئی، استنبول، میکسیکو سٹی، ممبئی، نیروبی اور سنگاپور کے ساتھ ساتھ 25 ممالک میں میں علاقائی دفاتر ہیں،
2017 تک پوری دنیا میں اس گروپ کی 17 ارب ڈالر تک سرمایہ کاری تھی، یہ رقم پاکستانی کے خزانے میں زر مبادلہ کے ذخائر سے زیادہ تھی،
واردات :
عارف نقوی نے سب سے زیادہ چونا عالمی بینک اور بل اینڈ ملینڈا گیٹس فاؤنڈیشن کو لگایا،
دونوں اداروں نے بھارت، پاکستان اور نائیجریا میں سکول اور ہسپتالوں کے قیام کے لیے فنڈز فراہم کیے تھے، عارف نقوی نے پہلے دونوں اداروں کے فنڈ ابراج گروپ کے اکاؤنٹ میں منتقل ہوئے اور اس بعد کے اپنے ذاتی اور بچوں کے اکاؤنٹنس میں منتقل کردیئے گئے اور سرمایہ کاروں کو اس سے آگاہ نہیں کیا گیا،
ابراج گروپ جو پندرہ برسوں کے اندر دنیا کی سب بڑی ایکوٹی فرم بن چکی تھی اور دنیا کے بڑے بڑے سرمایہ کاروں نے اس میں سرمایہ کاری کی۔ اس کے دیوالیہ ہونے میں صرف چار ماہ کا عرصہ لگا۔
یوں 17 ارب ڈالر والا ابراج گروپ 2018 میں ایک ارب ڈالر سے زائد کا مقروض تھا، عارف نقوی کے خلاف پہلا مدعی بھی بل گیٹس فائونڈیشن ہے،
برطانوی شہریت رکھنے والا عارف نقوی اس واردات کے بعد دبئی میں گرفتار ہؤا اور سات ماہ قید کاٹنے کے بعد رہا ہؤا۔

عارف نقوی اور عمران نیازی :
عارف نقوی تحریک انصاف اور شوکتِ خانم کے ایڈوائزر تھے اور اس کے لیے فنڈ ریزنگ کرتے تھے ،
عمران نیازی نے شوکت خانم اور نمل یونیورسٹی کے لئے جمع شدہ فنڈ کو کچھ گمنام آف شور کمپنیوں میں انوسٹ کرتے، اس میں کچھ کمپنیاں دیوالیہ ہوگئیں،
لیکن انشورنس کی وجہ سے رقم واپس مل جاتی تھی،
کہا جاتا ہے کہ یہ آف شور کمپنیاں بھی عارف نقوی کی ہوتی تھیں،اور یوں عمران نیازی اور عارف نقوی کی ملی بھگت سے یہ کاروبار چلتا رہا،
یہاں یہ بتاتے چلیں کہ عارف نقوی پر سب سے سنگین الزام بل فاؤنڈیشن کے ہیلتھ کیئر فنڈ میں ایک ارب ڈالر کی
بد عنوانی کا ہے،
دوسری جانب تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کے مدعی اکبر ایس بابر کا کہنا ہے کہ عارف نقوی نے 2013ءکے الیکشن میں عمران خان کو بھاری رقوم بھجوائیں جن کا ریکارڈ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو فراہم نہیں کیا گیا اور یہ ریکارڈ اُن اکائونٹس میں موجود ہے جن کی تفصیل الیکشن کمیشن کی اسکروٹنی کمیٹی کے پاس آ چکی ہے لیکن وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہی۔
اب اگر امریکہ میں عارف نقوی کے خلاف تحقیقات کا دائرہ وسیع ہوتا ہے تو فارن فنڈنگ کیس کے حوالے سے بھی ہوشربا انکشافات سامنے آئیں گے،
کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کی کہانی:
سنہ 1913 میں کراچی کے شہر کو بجلی فراہم کرنے کے لیے اس کمپنی کا قیام عمل میں لایا گیا،
1952 میں کارکردگی بہتر بنانے کیلئے حکومت پاکستان نے اس کا انتظام سنبھال لیا،
2005 میں ڈکٹیٹر مشرف نے باقی اداروں کی طرح اس کو بھی پرائیویٹائزیشن کی نظر چڑھا دیا،
اور یوں کے ای ایس سی 2005ء میں ال جمایا نامی سعودی عرب کی کمپنی کے حوالے کی گئی،
ال جمایا بجلی جنریشن کا تجربہ رکھنے والی کمپنی ہونے کے باوجود کے ای ایس سی کو نہیں چلا سکی،
2009 میں دبئی میں قائم ابراج گروپ نے اس میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کی اور اس کا انتظام سنبھال لیا،
عارف نقوی اس کے چیف آفیسر بن گئے،
اس کا نام کے الیکٹرک رکھ دیا گیا،
کارکردگی مزید خراب ہو گئی،

2015 میں ن لیگ کے دور میں جب سی پیک کی شکل میں چینی سرمایہ کاری ہونے لگی، تو اس وقت حکومت نے کراچی میں بجلی کا مسلئہ حل کرنے کے لیے کے الیکٹرک کا انتظام شنگھائی الیکڑک کارپوریشن کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن یہ معاہدہ ناکام بنا دیا، کیونکہ ابراج گروپ، الجمائئ گروپ اور نیشنل انڈسٹری گروپ کویت کے الیکٹرک کے 66.4 فیصد حصہ دار تھے،
عارف نقوی نے ایک جانب ان ذیلی کمپنیوں کے ساتھ ملی بھگت کرکے معاہدے کو ناکام بنایا اور دوسری جانب وال اسٹریٹ جنرل میں رپورٹس میں شائع کروائی کہ ابراج گروپ نے کراچی الیکٹرک میں اپنے حصہ کی فروخت میں وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بھائی شہباز شریف کا تعاون حاصل کرنے کے لیے ایک پاکستانی کاروباری شخصیت کے ذریعے انھیں 20 ملین ڈالر کی پیش کش کی
میں خبر چھپوائی کہ نواز شریف اور شہباز شریف نے 20 میلین ڈالر کی رشوت لیکر یہ معاہدہ نہ ہونے دیا۔
وزیراعظم بننے کے بعد عارف نقوی عمران خان کے معاشی مشیر بن گئے، وفاقی وزیر اسد عمر خود یہ انکشاف کر چکے ہیں کہ عارف نقوی ایک وقت میں ان کی حکومت کو بے ضابطہ مشاورت فراہم کر رہے تھے۔
عارف نقوی کی گرفتاری سے قبل وزیر اعظم عمران خان اور شہنگائی الیکٹرک کمپنی کے سربراہ میں ملاقات ہو چکی تھی جس میں عارف نقوی بھی شریک تھے۔ کے الیکٹرک کی فروخت سے قبل کمپنی کو نجکاری کمیشن سے نیشنل سکیورٹی سرٹیفیکیٹ مطلوب تھے جبکہ مختلف سرکاری محکموں کے کمپنی پر واجبات بھی ہیں۔
معاہدے کی راہ میں یہی واجبات سب سے بڑی رکاوٹ ہیں'

عارف نقوی کی خواہش تھی کہ شنگھائی الیکڑک ابراج گروپ کے حصص کی قیمت ادا کرے جبکہ واجبات معاف کئے جائیں یا حکومت پاکستان اس کی ادائیگی کردے،
ریاست مدینہ کے صادق آمین حکمران نے ایف آئی اے کو عارف نقوی کے خلاف کارروائی سے منع کیا ہوا ہے،

المختصر :
عارف نقوی ہو، جہانگیر ترین ہو یا علیم خان آپ کو چور چور اور کرپشن کرپشن کے نعرے لگانے والے عمران نیازی کا ہر اسپانسر معاشی طور پر بدعنوان اور کرپٹ ملیگا۔
واپس کریں