دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
بنگلہ کی حسینہ
طاہر سواتی
طاہر سواتی
بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد استعفیٰ دیکر بھارت چلی گئیں اور یوں اس کے ۱۵ سالہ اقتدار کا خاتمہ ہوا۔حسینہ واجد کے عروج و زوال کا خلاصہ کچھ یوں پیش کیا جاسکتا ہے۔
تعمیر و ترقی :
بنگلہ دیش کی تاریخ میں اس کا دور ترقی کے لحاظ سے ایک سنہری دور تھا۔ جنوبی ایشیا میں بنگلہ دیش نے ترقی کے رفتار میں بھارت کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا ۔ زرمبادلہ کے زخائر میں اضافہ ہوا ۔
دس برسوں میں ڈھائی کروڑ لوگوں کو غربت کے لیکر سے اوپر اٹھایا ۔ گارمنٹس کی صنعت نے بڑی ترقی کی ۔ ملک میں سی پیک طرز پر بڑے بڑے ترقیاتی پراجیکٹ لانچ کئے گئے ۔ صرف ’پدما برج، کی لاگت دو ارب ۹۰ کروڑ ڈالر ہے ۔ اس سے بہت فاصلہ کم ہوا ۔
سوئیلین آمریت یا فا شزم:
اگر منفی پہلوں کا جائزہ لیا جائے تو حسینہ نے ایک فاشسٹ لیڈر کا روپ ڈھالا ہوا تھا ۔ سب سے پہلے اس نے جماعت اسلامی کا صفایا کیا ۔ پھر واجد ضیا اور دیگر کو جیل میں ڈالا ۔ یہ مسلسل تیسرے انتخابات ہیں کہ وہ تن تنہا لڑتی اور جیتتی رہی ۔ اپوزیشن کا بائیکاٹ رہا ۔ اس نے اپنے مخالفین کے خلاف نہ صرف حکومتی مشینری استعمال کی بلکہ عوامی لیگ کے غنڈے ایک کلٹ کی صورت اختیار کرچکے تھے وہ ہر جگہ سیاسی مخالفین کو پھینٹی لگاتے تھے۔
اب حالیہ فسادات میں بھی دیگر جماعتوں کے طلبہ تنظیموں پر عوامی لیگ کی طلبہ تنظیم نے تشدد کیا جس سے غمُ و غصے میں اضافہ ہوا ۔
یہی فاشسٹ ماڈل عمران نیازی پاکستان میں لانا چاہتا تھا ۔ کہ ایک جانب فوج ، نیب ، عدلیہ اور پولیس کے ذریعے اپنے مخالفین کو کنارے لگانا اور دوسری جانب سوشل میڈیا اور عام زندگی میں تعلیمی اداروں ، بازاروں اور دفاتر وغیر میں اپنے زومبیز کلٹ کے ذریعے ان کا اور ان کے خانداں والوں کا جینا حرام کرنا۔
یہاں تک کہ پاکستان کی سیاست میں صرف وہ اور اسی کی جماعت باقی رہ جائے۔
یہی طرز عمل حسینہ اور اردگان دونوں کا ہے ۔
لیکن ہمارے اسلامی بھائیوں کی نزدیک اردگان ہیرو ہےاور انہیں اس کی فاشزم نظر نہیں آرہی اور حسینہ کی بربریت پر لبرل خاموش رہتے تھے۔
حسینہ یہ بھول گئی تھی کہ اگر پچاس سال قبل اس کے والد اور دیگر خاندان کو قتل کرنے کے باوجود اس کی جماعت اور سیاست ختم نہ کی جاسکی تو موجودہ مخالفین کی سیاست کیسے کنارے لگائے جاسکتی ہے ۔
اسی فاشسٹ روئیے کی وجہ سے اس نے حالیہ احتجاجی تحریک کو سیاسی طریقے سے حل کرنے کی بجائے طاقت سے دبانے کا راستہ اپنایا ۔ ایک ماہ میں تین سو کے قریب لوگ قتل کردئیے گئے۔ صرف کل بروز اتوار سو لوگ مارے گئے۔ اگر وہ سیاسی تدبر کا مظاہرہ کرتی تو حالات اس نہج تک کبھی نہ پہنچتے ۔
خاتمہ اور خطرناک صورتحال:
آنے والے وقت میں آصل صورت حال واضح ہوگی کہ اس کھیل میں کون کون سی بیرونی قوتیں ملوث تھیں جو چائنیز پراجیکٹس کو رول بیک کروانا چاہتی تھیں۔
لیکن سردست خاتمہ انتہائی غلط ہوا ہے۔
پندرہ سالہ جمہوری تسلسل کے بعد اگر حسینہ کو مستعفی ہونا بھی تھا تو صدر، پارلیمان کے اسپیکر یا کسی سیاسی جانشین جیسے آئینی عہدیدار کو قوم سے خطاب کرنا چاہئے تھا ۔
لیکُن آرمی چیف کے قوم سے خطاب کا مطلب ہے کہ بنگلہ دیش سیاسی آمریت سے گرا اور باوردی آمریت میں جا اٹکا۔
جزباتی بنگلہ بھائیوں کو وردی سے رجوع مبارک ہو۔
یہی امت مسلمہ اور تیسری دنیا کا المیہ ہے۔
واپس کریں