طاہر سواتی
ایران اور روس کی شہہ پر خناسی مہم جوئی کا نتیجہ چالیس ہزار معصوم انسانوں کے اموات اور چالیس لاکھ کے بے گھر ہونے کی صورت میں نکلا ہے۔ہانیہ جیسے ٹاپ لیڈر شپ اس کی نذر ہوچکی ہے جو اس مہم جوئی کے خلاف تھا۔دوسری جانب مغرب اور خاص کر برطانیہ میں ایک لاوا پک رہا ہے۔ جس کی بنیاد وجہ جمہوری آزادیوں کی فراوانی ہے۔ مسلمانوں کو مساجد حتی کہ اسلامی اسکول اور دارالعلوم تک بنانے اور چلانے کی آزادی ہے ۔ یورپ میں صورت حال مختلف ہے وہاں مساجد اور اسلامک اسکول قائم کرنے پر پابندی ہے۔
گزشتہ دس ماہ سے لندن سمیت تمام بڑے شہروں میں پلسطین کے حق بڑے بڑے مظاہرے ہورہے ہیں جس کے روح رواں ذیادہ تر الباکستانی اور الہندوستانی گجراتی مسلمان ہیں ۔
پرامن مظاہروں تک بات تو درست تھی لیکن چند ماہ سے پلسطین حمایت تحریک ایسے تشدد پر اتر آئی ہے کہ حکومت کو یہودیوں کے اسکول بند کرنے پڑے ۔
صرف جون کے مہینے میں بارکلے بینک کے بیس برانچوں پر رات کی تاریکی میں حملے کرکے ان کو نقصان پہنچایا گیا اور پھر علی اصباح دیدہ دلیری سے اس کی ذمہ داری بھی قبول کی ۔ کمنٹس میں اس کی تصاویر اور ویڈیو لگا رہا ہوں ۔
برطانیہ کے دائیں بازو کے گروپس جو پہلے ہی ایشیائی اور افریقی مسلمانوں سے ان کے کرتوں کی وجہ سے متفر تھے ۔ ان حالات نے انہوں بھی اپنا غصہ نکالنے کاٗ موقع فراہم کیا ۔
پچھلے ہفتے ایک افسوس ناک واقعے نے اس پر جلتی کاکام کردیا۔
گزشتہ سوموار کے دن برطانیہ کے جنوب ساحلی شہر ساؤتھ پورٹ میں مقامی ڈانس سکول میں بچوں کی ڈانس پرفارمنس کے دوران چھری سے لیس ایک شخص نے اچانک نمودار ہو کر حملہ کر دیا۔ اس حملے میں تین بچیاں ہلاک ہو گئیں۔
ہارٹ اسپیس سینٹر میں تقریب کے دوران ہونے والے حملے میں آٹھ بچوں سمیت 10 افراد زخمی بھی ہوئے تھے جن میں سے بعض کی حالت اب بھی تشویشناک ہے۔
پولیس نے ملزمُ کو گرفتار کرلیا ۔
اس دوران سوشل میڈیا پر افواہ پھیلی کہ ملزم مسلمان ہے۔
اگرچہ پولیس کے مطابق ملزم کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ،
چونکہ پولیس کمٗ عمری کی وجہ سے ملزم کا نام ظاہر نہیں کرہی کیونکہ اس کی عمر ۱۷ سال ہے۔
اس نے شدت پسند گروہوں کو جھوٹا پروپیگنڈا پھیلانے کا موقع فراہم کیا ۔
متعصب گروہوں نے پورے برطانیہ میں حملے شروع کردئیے۔ ایک پولیس اسٹیشن بھی نذر آتسش کرچکے ہیں ۔
مختلف شہروں میں ایشین اور افریقن پر حملے ہورہے ہیں ۔ کلُ بروز ہفتہ انہوں ملک گیر احتجاج کی کال دی تھی جس میں بہت ذیادہ پرتشدد واقعات سامنے آئے۔
ایسی صورت حال میں جہاں ایک طرف انسانی حقوق کے تنظیمیں ایکٹیو ہوگئیں تو دوسری جانب برطانیہ حکومت نے میں حالیہ فسادات میں ملوث ملزمان کے مقدمات کیلئے عدالتیں چوبیس گھنٹے کھولنے کا اعلان کردیا۔
اس سے مجھے دوسری جنگ عظیم میں چرچل کا وہ قول یاد آیا کہ اگر ہماری عدالتیں انصاف دے رہی ہیں تو برطانیہ قائم رہے گا۔
اس ساری صورتحال کی سب سے مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ جب شدت پسند گوروں نے ہفتے کے روز احتجاج کی کال دے دی تو ہماری الباکستانی ہر سوشل میڈیا گروپ میں احتیاطی تدابیر کی تلقین کرنے لگے ۔
کہ فلاں علاقے میں جانے سے اجتناب کریں وہاں احتجاج ہورہا ہے۔
اگر ایمان اتنا ہی پختہ ہے تو پھر آپ بھی سامنے آئیں ۔
لیکن روایت یہی ہے کہ جب تک فریق مخالف شرافت کا مظاہرہ کرے آپ چڑھتے جائیں جوں ہی اس نے آنکھیں دکھانا شروع کردیں آپ شریف بن کر آئین قانون اور اخلاقیات کے چھتری تلے چھپ جائیں ۔
پاکستانی یوتھئیے بھی گزشتہ دس برسوں سے یہی کچھ کررہے ہیں ۔
واپس کریں