دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
اور کیا حل ہے؟طاہر سواتی
طاہر سواتی
طاہر سواتی
پشتو کی ایک مشہور کہاوت ہے۔کہ غر لوئے دے خوپہ سر ئے لار شتہ۔ترجمہ: اگر کوئی پہاڑ بہت ہی بڑا اور اونچا ہے پھر بھی اس کے چوٹی تک راستہ جاتا ہے۔مطلب اگر کوئی مسئلہ کتنا ہی گھمبیر اور مشکل کیوں نہ ہوآخر اس کا کوئی نہ کوئی حل مل موجود ہوتا ہے۔آپ جب بھی شرق وسطی کے حالات اور خناس کی پاگل پن پر بات تو الباکستانی ایک ہی دلیل لے آتے ہیں کہ آخر خناس کے پاس اس کے علاوہ کیا حل ہے؟ جب پچھلے سال اکتوبر میں خناس نے روس اور ایران کی شہہ پر اس خود کش مہم جوئی کا آغاز کیا تو الباکستانیوں نے خوب جوش وُ جذبے کا مظاہرہ کیا ،
جب ہم جیسوں نے اس پاگل پن کے مہلک نتائج کے بارے میں بات کی تو ہر فورمُ پر ایک ہی رٹا رٹایا سوال اٹھایا گیا کہ “ آخر ان کے پاس اس کے علاوہ اور کیا حل ہے ؟؟ “
جو حل خناس نے چنا اور جس پر ہم نے تھالیاں بجائی اس کا نتیجہ تو ۴۰ ہزار انسانوں کی قربانی کے شکل میں سامنے آچکا ہے۔ جن میں ذیادہ تر معصوم بچے ہیں جن کو جنگ ، امن اور کفر و اسلام کا مطلب بھی معلوم نہیں تھا۔
اور آج خطے کے باسی ایک نہیں دو حل کے تلاش میں ہیں ایک اصل مسئلہ پلسطین کا حل ہو اور دوسرا حالیہ بحران کا خاتمہ ۔
مطلب اس حل نے مسئلہ حل کرنے کی بجائے ایک اور مسئلہ کھڑا کردیا ۔
سو سالہ تاریخ میں یہ مشق بار بار دہرائی جا رہی ہے۔
چلیں آگے چلتے ہیں ۔
چلیں خناس کے پاس اس کے علاوہ کوئی حل نہیں تھا اس لئے خود کشی پر اتر آئے ،
لیکن اسرائیل سے ۳ ہزار کلومیٹر کے دوری پر یمن کے ہوتیھوں کو کیوں آرام نہیں ، خود ان کا اپنا ملک ایک پائیدار امن اور خانہ جنگی کے خاتمے جیسے مشکل حل کے تلاش میں ہے۔
غربت ، بیروزگاری ، خانہ جنگی اور دھڑا بندی جیسے بحرانوں کے حل پر توجہ دینے کی بجائے وہ ایران کی شہہ پر اسرائیل پر ڈرون حملے کررہے ہیں ، جب جوابی کاروائی میں غریب اور معصوم شہری مریں گے تو پھر ہم عالم کفر کے ظلم اور امت مسلمہ کی مظلومیت کا رونا روئیں گے۔
دوسری جانب لبنان کی حالت دیکھیں ۔ جو خانہ جنگی سے معاشی بدحالی کے اس درجے تک پہنچا ہے کہ کوئی وزیر اعظم بننے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔
بنیادی ضروریات اور سرکاری امور چلانے کے لئے قطر اور دیگر عرب ممالک گرانٹ دیتے ہیں ، لیکن ایران کی شہہ پر ح ز ب اللہ روازنہ اسرائیل پر میزائیلُ حملے کررہے ہیں جب جوابی حملے سے اینٹ کی اینٹ بجائی جائیگی تو پھر حامد میر جیسے نوٹنکی جاکر ویڈیو بنائیں گے میرے اور آپ کے جذبات سے کھیلیں گے۔
خناس ، ح ز ب اللہ اور ہوتھی ایران پر تکیہ کرکے اپنے معصوم عوام کو جنگ کی آگ میں جھونک رہے ہیں ۔
وہ ایران جن کا صدر آج بھی خیرات میں دئیے گئے پچاس سالہ پرانے امریکی ہیلی کاپٹر میں سفر کرنے پر مجبور ہے ۔ جو حادثے کے ۱۸ گھنٹے بعد بھی اپنے صدر کے طیارے کا ملبہ تلاش کرنے میں ناکام رہا ۔
اور جس کے دو سو ڈرونز اسرائیل میں ایک پرندہ تک نہ مار سکے۔
اور جو دارالحکومت کے حساس علاقے میں اپنے ہائی پروفائل مہمان کی حفاظت نہ کرسکا ۔
جن کے ملاؤں نے انقلاب کے نام پر قوم کو یرغمال بنایا ہوا ہے اور تیل و گیس سے مالامال ہونے کے باوجود ایرانی شہری غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔
واپس کریں