دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آئی پی پی پیز اور جماعت اسلامی
طاہر سواتی
طاہر سواتی
آج کل بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے خلاف نفرت کارخ آئی پی پی پیز کی جانب موڑ دیا گیا ہے۔ جس طرح کچھ عرصہ قبل واپڈا ملازمین کے فری یونٹ کو مہنگی بجلی کا واحد ذریعہ بتایا گیا تھا ۔اور اس سلسلے میں ہر آئی پی پیز کو حکومتی وزرا یا سیاست دانوں کے کھاتے میں ڈال کر یہ شور مچایا جا رہا ہے کہ عوام کا خون یہ آئی پی پیز چوس رہے ہیں ۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی والے بھی دھرنہ دیکر اپنا نام شہیدوں میں لکھوا رہے ہیں ۔سینہ کوبی میں ن لیگ کے حمایت یافتہ دانشور حسب دستور سب سے آگے ہیں ۔
پاکستان کی تاریخ میں آئی پی پی پیز کی ابتدا کرنے والی پیپلزپارٹی کے جیالے اپنا الگ ڈھول بجا رہے ہیں۔
پاکستانی کی تاریخ میں سب سے ذیادہ آئی پی پی پیز کے معاہدے کرنے والے مشرف اور ان معاہدوں کی تجدید کرنے والے نیازی کے زومیز پیروکار حسب روایت اس کے ساری ذمہ داری موجودہ حکومت کے کھاتے میں ڈال کر ماحول کو گرما رہے ہیں ۔
اوپر سے ایک سابق نگران وزیر گوہر اعجاز کے آدھے سچ نے جلتی پر تیل کاکام کردیا ۔
ن لیگ کی وفاقی حکومت ، وزرا اور سوشل میڈیا قیمہ کریلا کھا کر سو رہے ہیں یا اپنے حمایتیوں کے خلاف ایف آئی اے کے کیس بنوانے میں مصروف ہیں۔
اس آہ و فغان میں مریم نواز کی صوبائی حکومت کی کارکردگی کہاں سنائی دے گی ۔
آئی پی پی پیز کیا ہوتے ہیں ؟
بین الاقوامی سطح پر یہ معاہدے کیسے کئے جاتے ہیں ؟
پاکستانی معاہدوں میں کیا ظلم کیا گیا ہے ؟
یہ ایک الگ بحث ہے ۔
لیکن بنیادی نکتہ صرف یہ ہے کہ آئی پی پی پیز کو بجلی کے بنیادی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے لایا گیا ہے کیونکہ ہمُ اپنی سالانہ ضرورت کے مطابق بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں ۔
ہم گرمیوں میں سردیوں کی نسبت تین گنا ذیادہ بجلی استعمال کرتے ہیں ۔
اب عوام کو سارا سال بجلی مہیا کرنے کے لئے یا تو حکومت کے پاس سستی پیداواری صلاحیت موجود ہو۔
یا گرمیوں میں آئی پی پی پیز کا سہارہ لیکر اس کو پورا کیا جائے ۔
اب ذرا چند حقائق جان لیجئے ۔
۲۰۰۹ میں جماعت اسلامی اور عمران نیازی بائیکاٹ کی وجہ سے حکومت سے باہر تھے ۔ ملک میں بجلی اور سی این جی کا شدید بحران تھا ۔ ایسے میں ان دو کی تنقید کا رخ مشرف یا پیپلز پارٹی کی بجائے شہباز شریف اور اے این پی کی صوبائی حکومتیں تھیں ۔ ان کا موقف تھا کہ ۱۸ ویں ترمیم کے بعد بجلی پیدا کرنا صوبائی حکومت کا کام ہے ۔ پھر خیبر پختون خواہ میں سستی بجلی کا شور آٹھا کہ اس صوبے کے چلتے دریاوں سے اتنی بجلی پیدا ہوسکتی ہے جو پوری ایشیا کے لئے کافی ہے۔
۲۰۱۳ میں کے پی کے میں ان حکومت آئی ۔
آج آئی پی پی پیز پر شور مچانے والے سراج الحق اور حافظ نعیم یا انصافی بتا سکتے ہیں کہ کتنی سستی بجلی بنائی ؟ صرف ۶۹ میگا واٹ
اس دوران شہباز شریف کے پنجاب حکومت نے ۵ ہزار میگاواٹ کے کارخانے لگوائے ۔
اگر ایک سازش کے نواز شریف کی حکومت ختم نہ کی جاتی تو تین سال بعد بھاشا ڈیم مکمل ہوکر ہمیں ساڑھے چار ہزار میگا واٹ سستی بجلی فراہم کررہا ہوتا ۔
نواز شریف کو اقامے پر نکالنے والے بابے نے پھر اسی ڈیم کے نام پر ۱۲ ارب روپے سلامی وصول کی ،
آج کہاں ہے وہ فراڈی بابا اور اس کا ڈیم جس پر اس نے تاحیات پہرا دینا تھا۔
آج سی پیک کا انڈسٹریل زون والا فیز مکمل ہوتا اور اس کے تحت بنائے گئے بجلی گھروں کی بجلی استعمال میں ہوتی ۔
امریکی سازش پر نواز شریف کو عدالتی سازش کے ذریعے نااہلی پر ترقی کا یہ سفر رک گیا اور اس کے بعد ہم ڈھلواںٗ کی جانب لڑھکتے جارہے ہیں ۔
اس ساری سازش میں جو جماعت اسلامی اور اس کا سراج آلحق عمران نیازی کے شانہ بشانہ کھڑے تھے وہ آج آئی پی پی پیز پر اپنے دکان چمکانے آگئے۔
اپنے اس مکروہ کردار پر کوئی شرم کوئی حیا ۔
حافظ صاحب !
سستی بجلی کے ایک پراجیکٹ کو مکمل کرنے کے لئے سرمائے کے ساتھ ساتھ چار پانچ سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے ،
مولا خوش رکھے!
یہ کوئی اللہ دین کا چراغ نہیں کہ ادھر رگڑ دیا اور ادھر جن نے حاضر ہوکر سستی بجلی کی تار تھما دی ۔
واپس کریں