دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کرب و بلا ۔کالم نگار،طاہر سواتی
طاہر سواتی
طاہر سواتی
تاریخ اور سیاست کے طالب علم کی حثیت سے سانحہ کربلا کو ہمیشہ اسی تناظر میں دیکھا۔پہلی بار واقعہ کربلا کو شعوری طور اس وقت پڑھا جب ساتویں جماعت کا طالب علم تھا۔چند سال بعد سلمان رشدی کے فتنے کا شور اٹھا۔ اس کے خلاف اسلام آباد میں احتجاجی مظاہرے ہوئےجس میں کئی لوگ مارے گئے ،گزشتہ تین دہائیوں میں توہین اور اس سے متعلق جانی و مالی نقصانات کی ایک لمبی تاریخ ہے۔آپ سوچیں گے کہ توہین رسالت اور واقعہ کربلا کا آپس میں کیا تعلق ہے؟میرے نزدیک بہت بڑا تعلق ہے۔
آج ہم جیسےبےعمل اور کمزور ایمان والے بھی توہین رسالت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے، بلکہ خبر سنتے ہی ہمارا جذبہ ایمانی ایسے بھڑک اٹھتا ہے کہ واقعے کے تحقیق پر وقت ضائع کئے بغیر انسانوں اور بستیوں تک بھون ڈالتے ہیں۔ اگر ہمارے جذبہ ایمانی کی یہ حالت ہے تو چودہ سو سال قبل ہمارے بزرگوں کا ایمان اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کس درجے پر ہوگا۔
تاریخ کا سوال یہ ہے کہ جب کربلا میں نواسہ رسول صلی اللہ اہل خانہ سمیت بیدردی سے شہید کردئیے گئے تو اس وقت ہزاروں اہل ایمان موجود تھے ان میں سے سینکڑوں نے اپنی آنکھوں سے امام حسین علیہ السلام کو سرور کائنات کے جھولی میں ناز و نعم سے پلتے دیکھا تھا۔ اس ظلم ، بربریت اور توہین رسالت پر ایمان کیوں نہیں جاگا؟
اس لئے کہ اکثریت آمریت کے سامنے سرنگوں ہوتی ہے۔
ہم صرف اہل کوفہ کو کوستے رہتے ہیں جبکہ اس وقت پورا عالم اسلام کوفہ بنا ہوا تھا۔
آج چودہ سو سال بعد ہم توہین رسالت کی جھوٹی افواہ پر آگ بگولا ہوتے ہیں لیکن صحرائے کربلا میں آلُ رسول کی توہین پر نہ صرف خاموشی اختیار کرتے ہیں بلکہ قاتلوں کی بیگناہی کے لئے تاویلیں ڈھونڈتے ہیں ۔
اس لیے کہ توہین رسالت سمیت دین کی ہر تشریح ہم نے قران و سنت کی بجائے اپنے فرقے کے پیشوا کے فرمودات سے کشید کی ہے۔
ہمارے علما حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول بڑے شوق سے اپنے ہر سیاسی تقریر میں بیان کرتے ہیں اور پھر اسی کے تناظر میں جمہوری حکومتوں کو لتاڑتے رہتے ہیں کہ
“ اگر دریائے دجلہ و فرات کے کنارے کوئی کُتا بھی مرے گا تو عُمر بن خطاب روز محشر اس کا جواب دہ ہوگا”
تو پھر فرات کے کنارے آل رسول کے بہیمانہ قتل عام پر یزید کیسے ذمہ دار نہیں ۔ وہاں ذمہ داری صرف ذیاد اور شمر پر کیوں ڈالی جاتی ہے۔
مجھے پریشان کرنے والا دوسرا سوال !
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ
“لوگوں کے درمیان قیامت کے دن سب سے پہلے خون (قتل) کا حساب ہوگا”
سیدنا ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
“قیامت کے دن قاتل کی پیشانی کے بال اور سر مقتول کے ہاتھ میں ہوگا اور اس کے گلے کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا اور اللہ سے فریاد کرے گا کہ اے میرے رب ! اس نے مجھے قتل کیا تھا یہاں تک کہ عرش کے قریب لے جائے گا”
اور حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ
“اگر تمام روئے زمین کے اور آسمان کے لوگ کسی ایک مسلمان کے قتل میں شریک ہوں تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دےگا، اورجس شخص نے کسی مسلمان کے قتل میں آدھے کلمے سے بھی اعانت کی وہ قیامت کے دن اللہ کے سامنے اس حالت میں آئے گا اس کی پیشانی میں لکھاہا ہوگا کہ۔
“یہ شخص اللہ کی رحمت سے محروم ہے۔“
اب ذرا تصور کریں ،
بروز محشر خون کا حساب ہو رہا ہے۔
اماُم حسین علیہ السلام اپنے اور اہل و عیال کے خون آلود جسموں کے ساتھ دربار خداوندی میں انصاف کے طلب گار ہیں ۔
یزید اور ان کے سارے قاتل ساتھی پیش ہورہے ہیں ۔ اس کے پیچھے ان ہزاروں انسانوں کی قطاریں ہیں جو آنے والے صدیوں میں اپنے زبان یا کلام سے یزیدی ٹولے کے حمایتی رہے ہیں۔
میں بھی اس قطار میں کھڑا ہوں اور میرے ماتھے پر لکھا ہو کہ
“ یہ شخص اللہ کی رحمت سے محروم ہے”
شافعی محشر صلی اللہ علیہ والہ وسلم یہ سارا منظر نامہ دیکھ رہے ہیں ۔اب ایسے میں میرے پاس کون سا راستہ ہوگا؟
کیا اس وقت میرے مسلک کا کوئی ٹھیکدار مجھے بچانے آئیگا؟
صرف اپنے مسلک اور فرقے کے پیشوا کی محبت میں یہ ساری ذلالت برداشت کروں ؟
ادھر ہمارے مورخین اور مسلکی اکابرین نے بنی امیہ کے بادشاہت اور بربریت کو خلافت کا جامہ پہنایا ہوا ہے۔
ان میں سے کچھ دانشور یہ دلیل دیتے ہیں کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کو اپنا جانشین نامزد کرکے امت کو تفرقے سے بچایا ۔ جس دور میں پیغمبر اسلام کے آل کو صفہ ہستی سے مٹادیاگیا اس سے بڑا تفرقہ اور کیا ہوگا۔ جس کے بعد امت ہمیشہ کے لئے دو تفرقوں بٹ گئی۔
آخر میں اپنے اپنے مسلکی ٹھیکیداروں کے فتوے اور قصے کہانیاں اپنے اپنے پاس رکھئے ۔بہت پڑھ چکا ہوں ۔
پڑوس میں اہل سنت کے خالص دیوبندی ایک ریاست پر بزور طاقت قابض ہیں اور ساتھ ہی اہل تشیع کے مولویوں نے گزشتہ نصف صدی سے اپنی دکان سجائی ہوئی ہے۔
بنیادی انسانی حقوق کی پامالی ،خواتین پر جبر وتشدد اور اظہار رائے پر پابندی کے حوالے سے دونوں اپنے اپنے وقت کے یزید اور آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔
واپس کریں